آئی ایم ایف سے مراعات لینے کا ارادہ

وزیر خزانہ شوکت ترین نے پریس کانفرنس اورنجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران مہنگائی کے خلاف کئے جانے والے اقدامات سمیت بعض اہم اشارے دیئے ہیں۔وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق کے برعکس معاشی شرائط طے کی جائیں تو 90فیصد آئی ایم ایف پروگرام ناکام ہو جاتے ہیں۔انہوں نے کہاہے اس ضمن میں آئی ایم ایف سے ابتدائی بات چیت ہو چکی ہے، آئی ایم ایف کو سمجھایاہے کہ سخت شرائط کی سیاسی قیمت بھی ہے،اگر انہیں نرم نہ کیاگیا تو سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔آئی ایم ایف سے کہا ہے اتنا گلا دبایا جائے کہ سانس لے سکیں،مشکل ترین اصلاحات کے متبادل اقدامات تجویز کریں گے۔ عام آدمی پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے۔بجلی مہنگی نہیں کی جائے گی، نہ ہی ٹیکسوں میں یکدم اضافہ ہوگا۔بجلی، گیس اور دیگر خدمات کے ٹیرف میں اضافہ مسئلے کا حل نہیں، ان کے نرخ جتنے کم ہوں گے ان کا استعمال جتنا زیادہ ہوگا، اسی قدرخزانے کے نقصانات کم ہوں گے۔ایف بی آر کے بارے میں شکایات ہیں ہراساں کرتا ہے، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔وزیر خزانہ نے میڈیا کو بتایا کہ ابتدائی بات چیت میں آئی ایم ایف کا رویہ ہمدردانہ تھا۔ملکی معیشت کے حوالے سے نئے وزیر خزانہ کا خیال ہے کہ ملک کو معاشی استحکام(Stability) کی طرف لانے کا مرحلہ مشکل تھا ہم نے عبور کر لیا ہے اب اسے بڑھوتری (Growth)گروتھ کی طرف لے جانا ہے۔انہوں نے ایک بار پھر 60اور70کی دہائی کا ذکرکرتے ہوئے یاد دلایا کہ پاکستان ایشیائی ممالک سے آگے تھا،منصوبہ بندی کی جائے تو آگے بڑھنا ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔ وزیر خزانہ کی ساری گفتگو کتابی بحث اور اصطلاحات پر مبنی تھی۔ان کے پیش رو بھی معاشی اصطلاحات بیان کرکے سمجھایا کرتے تھے کہ جو پالیسی انہوں نے اختیار کی ہے وہی عوام کو معاشی بحران سے نجات دلائے گی۔اگر یہ سچ ہوتا تو آج وہ سینہ تان کر عوام کے سامنے بیٹھے اپنی کامیابیوں کی داد سمیٹ رہے ہوتے۔ان کا منظر سے غائب ہونا معنی خیز ہے۔کہیں نہ کہیں پروگرام بناتے ہوئے غلطی رہ گئی تھی جس کے نتیجے میں مہنگائی کا بوجھ عام آدمی کے کندھوں پر منتقل ہوا۔ضمنی انتخابات کے نتائج دیکھ کر وزیر اعظم کو اندازہ ہو جانا چاہیئے کہ عام آدمی ان سے ناراض ہے۔اب ان کے پاس آدھا وقت رہ گیا ہے۔ بعض مبصرین جو ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کئے ہوئے شدید مایوسی کااظہار کر رہے ہیں۔جو مکمل مایوس نہیں، وہ بھی امید نہیں کرتے کہ باقی ماندہ مدت میں پی ٹی آئی کی حکومت کوئی ایسی متأثر کن کارکردگی دکھاسکے گی جس کے نتیجے میں عام آدمی کے چہرے پر تازگی آ سکے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے پورے یقین سے کہاتھا کہ 200قابل افرادکی ٹیم ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔اصولی طور پر بات درست تھی۔لیکن ڈھائی سال گزرنے کے بعدانہیں عبدالحفیظ کی جگہ شوکت ترین کو دیکھ کر ایک جھٹکا لگا ہے۔وہ سوچنے لگا ہے کہ اگر شوکت ترین زیادہ قابل تھے تو انہیں پہلے والے200ماہرین میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟اس کے ساتھ ہی عام آدمی کو وزیر اعظم عمران خان کا گلگت والا اعترافی بیان بھی یاد آتا کہ وہ اکثر سوچتے ہیں:”اگر فلاں وزیر کی جگہ دوسرے کو وزیر بنا دیتا تو اچھا ہوتا“۔ اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ بیشتر وزراء کی کارکردگی سے وہ خود بھی مطمئن نہیں، اسی لئے تھوڑے وقفوں کے بعد ان کی وزارتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں لیکن عبدالحفیظ شیخ کی وزارت تبدیل نہیں کی گئی بلکہ انہیں کابینہ سے ہی فارغ کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ا نہیں قومی اسمبلی میں مطلوبہ ووٹ نہ مل سکے اور وزیر اعظم کو اس شکست کے بعد اعتماد کا ووٹ لینا پڑا۔اگر عبدالحفیظ شیخ جیت جاتے تو کابینہ کا حصہ ہوتے۔ابھی اس بارے میں کچھ کہناقبل از وقت ہوگا کہ اس تبدیلی سے ملکی معیشت کو فائدہ پہنچایا اس کے برعکس ہوا۔ ڈھائی سال بعد یہ راز کھلے گا،اور اس وقت عام آدمی اپنی رائے کا اظہار کرے گا۔تاہم شوکت ترین کا لہجہ پراعتماد تھا، وہ سالانہ 20لاکھ نوکریاں دینے کی بات بھی کر رہے ہیں، قومی ترقی کی شرح 6فیصد ہونے کے بارے میں پر امید ہیں۔ان کا خیال ہے کہ چین سے بھی پاکستان میں صنعتیں لگوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔زراعت کا شعبہ ماضی میں نظرانداز رہا، اسے اوپر لایا جا سکتا ہے۔وزیر اعظم سیاحت کے شعبے کو معاشی تریاق سمجھتے ہیں۔ لیکن عام آدمی آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے۔کورونانے سیاحت کاراستہ بند کر رکھا ہے۔سعودی عرب حاجیوں کے بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں کر پایا حالانکہ اسے 20لاکھ حاجیوں سے12ارب ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔شاید شوکت ترین سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے کرونا کے نام پر کچھ مراعات لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے تمام سیاسی پارٹیوں سے اچھے مراسم ہیں،(بجٹ منظوری کے وقت)ان کا تعاون حاصل کر لیں گے۔عام آدمی کے لئے یہ جملہ قابل توجہ ہے۔یعنی جہانگیر ترین گروپ بجٹ منظور ہونے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔متبادل انتظام ہو جائے گا۔اس کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ پی ٹی آئی اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کر لے گی۔اور مریم نواز پہلے ہی کہہ چکی ہیں:ہم چاہیں تو ایک منٹ میں حکومت کو چلتا کر دیں لیکن ہم نہیں چاہتے وہ سیاسی شہید بنے“۔پی پی پی کسی غیر آئینی طریقے سے حکومت ہٹانے کی حامی نہیں۔ اب شوکت ترین بھی اپنے سیاسی تعلقات کے بل پر ایسا ہی پیغام دے رہے ہیں تو عام آدمی کے لئے دوسرے آپشن معدوم ہو جاتے ہیں۔اگر یہ سب درست مان لیا جائے تو عید کے بعدزیادہ طاقت سے نکلنے والے اس اعلان کا کیا بنے گا جو چند روز قبل 8جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دیا ہے۔گویا عام آدمی جان لے کہ اس نے آئندہ ڈھائی برس آسمان کی طرف ہی دیکھنا ہے، زمینی منظر اس سے پہلے نہیں بدلے گا یااس دوران شوکت ترین آئی ایم ایف سے سانس لینے کی درخواست منوانے میں کامیاب ہو جائیں؟ دنیاامید پر قائم ہے،جیسے تیسے آدھی مدت گزر گئی، آئندہ بھی گزر ہی جائے گی۔شرط یہ ہے کہ شوکت ترین آئی ایم ایف سے کورونا ریلیف لے سکیں۔اور یہ بات جون کے وسط تک سب کو معلوم ہو چکی ہوگی۔کئے جانے والے دعوے پورے ہونے کی تاریخ دور نہیں۔سعودی عرب سے دوستی بحال ہو سکتی ہے، سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات ہوسکتے ہیں تو مان لیا جائے کہ آئی ایم ایف سانس لینے کی سہولت دینے میں تأمل نہیں کرے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں