کیاافغانستان پھر میدان جنگ بنے گا؟

امریکہ کے انخلاء کے بعد افغانستان میں کیا ہوگا؟ یہ سوال پاکستان سمیت افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے لئے اہمیت اختیار کر گیا ہے۔وجہ یہ ہے کہ امریکہ اپنے وعدے کے مطابق ستمبر تک اپنی افواج افغانستان سے واپس بلا لے گا۔ افغان طالبان اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں،اشرف غنی حکومت معاہدے میں فریق نہیں تھی اور ابھی تک یہ خطرہ موجود ہے کہ افغانستان میں حکومت سازی کا فیصلہ خانہ جنگی کے ذریعے ہوگا۔اگر ایسا ہوا تو اسے اس خطے کے لئے ایک بدقسمتی سمجھا جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان اور تاجک صدرامام علی رحمٰن گزشتہ دنوں اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں۔خانہ جنگی کے نتیجے میں لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں پہلے ہی مہاجرین کی بڑی تعداد برسوں سے موجود ہے،خانہ جنگی کی صورت میں ان کی واپسی رک جائے گی بلکہ نئے مہاجرین کی آمد شروع ہو سکتی ہے۔دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ امریکی انخلاء مکمل ہونے سے پہلے فریقین مذاکرات کے ذریعے اپنے معاملات طے کرلیں۔ایک دوسرے کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کے خبط سے باہر نکلیں۔امریکہ اپنی یہ چنگیزی خواہش پوری نہ کر سکا، لاشوں اور زخمی فوجیوں کے ساتھ واپس جا رہا ہے۔اس میں شک نہیں کہ امریکی واپسی کے معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ اشرف غنی حکومت کوبھی شکست ہوئی ہے اس لئے کہ دونوں تا حال ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔لیکن صرف اسی پہلو کو کافی نہیں کہہ سکتے،افغانستان کی اپنی لسانی تقسیم بھی اہم فیکٹر ہے۔اس تناظر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔چین اور روس بھی خانہ جنگی کواپنے مفاد میں نہیں دیکھتے۔کوشش کر رہے ہیں کہ امن قائم ہوجائے۔مگر بنیادی ذمہ داری افغان سیاست دانوں اور شدت پسندوں کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔پاکستان وہاں اپنی مرضی کی حکومت بناناچاہتا ہے والے پرانے تأثر کو ختم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔پاکستان بار بار کہہ رہا ہے کہ یہ حق کلیتاً افغان عوام کو حاصل ہے،جیسی چاہیں حکومت تشکیل دیں۔اس حوالے سے کسی قسم کی بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیئے۔یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ نے عالمی ضامنوں کی مشاورت کے بغیرایران سے معاہدہ ختم کرکے اعتماد کھو دیا ہے،اپنی اثرانداز ہونے کی پوزیشن کو نقصان پہنچایا ہے۔ستمبر میں امریکی افواج کی واپسی کے بعد بھارت کے لئے بھی یہاں اپنے مفادات کو آگے بڑھانا آسان نہیں رہے گا۔ پاکستان اور افغان بارڈر پر حفاظتی باڑ کی موجودگی میں آمدورفت کی پرانی آزادی نہیں ہوگی۔لہٰذا یہ سوچنا کہ 20سال پہلے والی صورت حال پیدا ہو جائے گی، درست نہیں۔پاکستان نے اپنے تجربات سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔دوستی اور دشمنی کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔اسی طرح افغانستان بھی آگ اور خون کا دریا عبور کرکے یہاں تک پہنچا ہے۔بلکہ ابھی یہ سلسلہ تھما نہیں۔مختصر وقفوں سے کوئی نہ کوئی خونی واردات رونما ہو جاتی ہے، اسکول، اور مدرسے بھی محفوظ نہیں۔افغان بچے مر رہے ہیں، والدین ان کی لاشیں اٹھارہے ہیں۔ ان حالات میں یہ کہنا اورسمجھنا بہت بڑی غلطی ہوگا کہ افغان قیادت نے کچھ نہیں سیکھا۔امریکہ جیسی طاقت ورریاست کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دینا غیر معمولی واقعہ ہے۔اشرف غنی حکومت بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں۔افغان عوام نے جس ہمت سے سخت حالات کا مقابلہ کیا ہے یہ اسی کا ثمر ہے۔یہ کامیابی انہیں ٹرے میں سجا کر پیش نہیں کی گئی۔عوام کے مفادات کو سرِ فہرست رکھا جائے۔عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کیا جائے۔اگر افغان قیادت نے عوام کے مفادات کی حفاظت اپنی حکمت عملی کا مرکز و محور بنا لیا تو وہ ایک نئی تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے بصورت دیگر ساری کامیابیاں انا کی چتا میں راکھ ہونے کا خطرہ موجود رہے گا۔اوراس آگ کی تپش سے ان کے ہمسائے بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ایک بات سب کو یاد رہنی چاہیئے کہ جنگ کی طوالت کوئی پسند نہیں کرے گا۔خانہ جنگی سے ہر ممکن بچا جائے۔حکومت سازی کے عمل کواتناپیچیدہ نہ بنایاجائے کہ کل اسے سلجھاناممکن نہ رہے، درمیانی راستہ ہر وقت موجود رہتا ہے، تلاش کی جائے۔پاکستان اور دیگر ہمسایوں پر وہ بوجھ نہ لاداجائے جسے اٹھانا ان کے بس سے باہر ہو۔ترقی اور خوشحالی کے لئے امن کا قیام پہلی شرط ہے۔غیر ملکی قوتوں کو نکالنے کے بعد آپس میں لڑنا عقل سے بعید اور حماقت سے قریب ہے، اس بھیانک غلطی سے بچا جائے۔ایسا ماحول پیداکیا جائے کہ ہمسایہ ممالک میں مہاجر بن کر تکلیف بھری زندگی گزارنے والے اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔اپناوطن جنت سے کم نہیں ہوتا۔کیا افغان قیادت نہیں جانتی کہ پھول جیسے افغان بچے کس طرح کوڑے کے ڈھیروں سے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں اورعمر رسیدہ افغان بس اسٹاپ پر مسافروں کو پانی پلاکراپنا پیٹ پالتے ہیں۔ان معصوم بچوں کے یہ دن اسکول جانے کے ہیں، ضائع ہوگئے تو لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ان کے مستقبل کے بارے میں سوچنا افغان قیادت کا بنیادی فریضہ ہے۔آزادی کی جنگ اور اقتدار کی لڑائی میں فرق محسوس کیا جائے۔آزادی ایک عظیم مقصد ہوتا ہے جبکہ وزارتوں کا حصول اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔وزارتوں کی تقسیم کوعوام کے سکون اور خوشیوں پر ترجیح نہ دی جائے۔وزارت چار روز گاڑی پر جھنڈا لہرانے سے کچھ نہیں۔اپنے معصوم بچوں کو اسکول سے محروم رکھنے کی غلطی نہ دہرائی جائے۔خوف کی علامت بن کر امریکیوں کو واپس بھیجنا ستمبر میں ختم ہوجائے گا۔اس کے بعدافغانیوں کے لئے محبت اور ایثار کا نمونہ بننے کا مرحلہ شروع ہوناچاہیئے۔اب کوئی سعودی شہری(اسامہ بن لادن کی طرح) پناہ لینے کابل یا قندھار نہیں آئے گا۔سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا طویل انٹرویو دیکھ لیا جائے۔انہوں نے عبدالوہاب کے فتاویٰ ا ور ”حدیث پر مبنی اسلام“ کی جگہ محمد (ﷺ)پر نازل ہونے والے”قرآن پر مبنی اسلام“کو سعودی عرب کا دستور(Constitution) بنانے کااعلان کردیا ہے۔وہ اسلام کے نام پرکی جانے والی دہشت گردی کو جرم قرار دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ سعودی ولیعہد ایران سے اپنے اختلافات دور کرنا چاہتے ہیں،ان کا کہنا ہے حوثی قبائل کی رکاوٹ ہے، جلددور ہوجائے گی۔آج اقوام متحدہ کے کنونشنز سے انکار کوئی ریاست نہیں کر سکتی۔اپنا ملک عالمی سوسائٹی کے لئے قابل قبول بنانا ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ”خوف“جیسا لفظ ان کی لغت میں نہیں۔ افغان طالبان نئے ماحول میں اقتدار سنبھالیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں