آٹا، گھی اور چینی ایک بار پھر مہنگی

پی ٹی آئی تین سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی آٹا، گھی،چینی سمیت دیگر اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ نہیں روک سکی۔یوٹیلٹی اسٹورز حکومت کی نگرانی میں چل رہے ہیں،مگر یہاں بھی اچانک گھی کی قیمت90روپے فی کلو، 20کلو آٹے کا تھیلہ150روپے اور چینی 17روپے فی کلو مہنگی ہوگئی ہے۔یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے سربراہ مستعفی،حکومت کا کہنا ہے کہ سبسڈی کارڈ جاری کیا جا رہا ہے اسے استعمال کرنے والے مستفید ہوں گے۔دیگر افراد کے لئے یہ سہولت نہیں ہوگی۔ تمام یوٹیلٹی اسٹورز کا کمپیوٹرائز کیا جارہا ہے۔ حکومت نے اس ضمن میں یقینا ڈیٹا جمع کر لیا ہوگا، احساس پروگرام سے بھی مدد ملی ہے۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد غریب خاندانوں کی تعداد سے کہیں کم ہے۔اس کے علاوہ ان اسٹورز پر اشیائے خوردنی بیشتر اوقات دستیاب نہیں ہوتیں،دو کلو چینی کے لئے بھی عورتیں، مرد اور بچے گھنٹوں طویل قطاروں میں کھڑے دیکھے جا تے ہیں۔یہ مناظر مہذب معاشرے میں تکلیف دہ سمجھے جاتے ہیں اور متروک ہو چکے ہیں۔راشن کارڈ سسٹم اس نظام سے کہیں بہتر تھا۔ہر محلے میں راشن شاپ ہونے سے لوگوں کو لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔کارڈ جمع کراکے گھر چلے جاتے اور بعد میں تلا ہوا راشن لے جاتے تھے۔دیہاتوں میں بھی راشن شاپ کی سہولت لوگوں کو میسر تھی۔اشیائے خوردنی غریب کو ضرورت کے مطابق بروقت ملتی رہیں تو اس کی زندگی منافع خوروں سے محفوظ رہتی ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کا اسٹاف خود کو روایتی سرکاری ملازم سمجھتا ہے اور کرپشن کی پرانی روش کو اپنائے ہوئے ہے۔ذہنیت راتوں رات تبدیل نہیں کی جا سکتی، یوٹیلٹی اسٹورز پر دیکھی جانے والی بدنظمی اسی کرپٹ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔دوسری شکایت یہ ہے کہ چینی کی کوالٹی عام دکانوں پر بکنے والی چینی سے کمتر ہوتی ہے، اس شکایت کوبھی دور کیا جائے۔تین سال میں معاشرے کو تین اشیاء ہی درست ریٹ پر ملنے کا عمل نافذ ہوجاتا تو عام آدمی کی بے یقینی دور سکتی تھی۔عوام کے مسائل کا حل نہ ماضی کی حکومتوں نے سنجیدگی سے تلاش کیا اور نہ ان تین برسوں میں تلاش کیا جا سکا۔ خط ِافلاس کی پرانی حد بندی اپنی افادیت کھو بیٹھی ہے۔موجودہ مہنگائی کے سامنے دو ڈالر یومیہ آمدنی بے وقعت ہو چکی ہے۔لہسن،ادرک، پیاز اور ٹماٹر کے دام بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ان حالات میں سفید پوش طبقے کے لئے عزت بچانا دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ماناکہ حکومت اور اپوزیشن کی توجہ کشمیر انتخابات پر مرکوز ہے،دونوں جانب سے پرزور انتخابی مہم چلائی جارہی ہے۔اس دوران ایک دوسرے پر بے بنیاد الزام تراشی اور گالیوں بھرے القاب دینے کی روایت بھرپور انداز میں جاری ہے۔ماضی کی تاریخ دہرائے جانے کی توقع زیادہ ہے،اس کے نتیجے میں وہی پارٹی انتخابات جیت کر حکومت سازی کرتی ہے جو پاکستان میں برسرِ اقتدار ہو، اس لحاظ سے پی ٹی آئی کی جیت کے چانسز زیادہ ہیں۔یہاں بھی ووٹرز کی نفسیات گلگت بلتستان سے مختلف نہیں۔پی پی پی ا ورمسلم لیگ نون دونوں وفاقی حکومت سے باہر ہیں،البتہ سیاست میں مایوسی کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں، اس لئے مہم سے باہر رہنا بھی ممکن نہیں۔تاہم عیدالاضحیٰ کی تین تعطیلات کے دوران قربانی اور خاندان کے ساتھ گزارنے کے امکانات بڑھ جانے کے باعث انتخابی سیاسی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں گی۔ 25جولائی کی رات معلوم ہوجائے گا کہ آزاد کشمیر میں حکومت کون سی پارٹی بنائے گی۔ اس کے بعد بقول وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان فاصلے کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینیوں کی ہلاکت کے سلسلے میں ان کی ایک تحقیقاتی ٹیم اسلام آباد پہنچ چکی ہے،اب تو پاکستانی حکومت بھی اس واقعہ میں دہشت گردی کو شامل کرنے لگی ہے۔دراصل حکومت کو اوی لمحے چوکنا ہو جانا چاہیئے تھا جب نانگا پرتبت پر سیاحوں کے قتل میں ملوث جنگجوؤں نے عدالت لگائی تھی۔افغانستان میں دکھائی دینے والی تبدیلی کے آثار کے پیش نظر کسی غفلت یا سستی کا نتیجہ ایسے واقعات کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔کرم ایجنسی میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد آئی ایس پی آر کی جانب سے گیارہ کی بجائے ایک بتائی گئی ہے،ترجمان کے مطابق16مزدور اغواء ہوئے، ان میں سے ایک قتل کیا گیا، 10کو اغواء کاروں نے خود ہی چھوڑ دیا جبکہ 5کو بازیاب کرالیا گیا ہے۔اب چینی ٹیم کی تحقیقات سے حقائق تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔واقعے کی اصل نوعیت سامنے آنے سے مستقبل کی منصوبہ بندی میں مدد ملے گی۔تاہم اس تناظر میں اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سب کچھ قابو میں ہے تو آنکھیں بند کرکے اس دعوے کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔معاملات سادہ نہیں، پیچیدہ ہیں، یک رخی نہیں ہمہ جہتی ہیں۔خطے میں عالمی مفادات کی چومکھی جنگ لڑی جاہی ہے۔یاد رہے کہ پاکستان بھی اس جنگ کے بڑے متأثرین میں شامل ہے۔چار دہائیوں میں کسی ایک یا دوسری شکل میں فعال فریق کی حیثیت سے کردار ادا کیا ہے۔امریکہ نے 2001میں پاکستان سے فون پر پوچھا تھا:”دوست ہو دشمن؟“،پاکستان کا جواب تھا:”دوست!“ یہ اسی دوستی کا دوسرا سرا ہے۔وہ آغاز تھا، یہ انجام ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے مفاد پرستی کی جنگ میں ”دوستی/دشمنی“کے معنے اور”اخلاقیات“ کی شکل بدل جاتی ہے۔ہمارے معاملے میں بھی کوئی استثناء نہیں،بگرام خالی کرتے وقت افغان حکومت کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔آج افغان حکومت کوڈ اور پاس ورڈ نہ ہونے کے باعث نہ جنریٹر چلا سکتی ہے نہ ہی مین گیٹ کا تالا کھول سکتی ہے۔ افغان حکومت کوبھی امریکی افواج کی بلا جوازآمد شرمناک پسپائی کو درست تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔افغانستان پر کون حکومت کرے گا؟ یہ حکمت کیسے بنے گی؟یہ فیصلہ کرنے کا اختیارافغان عوام کو حاصل ہے۔روایتی جرگہ بلایا جائے، جرگہ باہمی مشاورت سے مناسب حل تلاش کرے اور خانہ جنگی سے بچنے کی ممکنہ راہ نکالی جائے۔دونوں جانب سے افغان مارے جا رہے ہیں۔طالبان یہ حقیقت فراموش نہ کریں کہ ان کے ماضی کے طرز سیاست کو عالمی برادری نے قبول نہیں کیا تھا،صرف پاکستان میں واحد سفارت خانہ تھا۔اپنے ترجمان ذبیح اللہ کے ذریعے کرائی گئی یقین دہانی کے برعکس اقدامات نہ دہرائے جائیں، عالمی تأثر کو بہتر بنانے کی بجائے نقصان پہنچائیں گے۔قول و فعل میں تضاد بیانی دور کی جائے۔دوغلہ پن منافقت ہے،اَللہ نے منافقین پر لعنت بھیجی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں