کشمیری عوام فیصلہ خود کریں گے

وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران جلسے سے خطاب کے دوران اچانک ایک حیران کن اعلان کردیا کہ کشمیر میں دو ریفرنڈم ہوں گے۔پہلا ریفرنڈم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہوگا جس میں کشمیری عوام فیصلہ کریں گے بھارت یا پاکستان؟اس فیصلے کے بعد کشمیری عوام ریفرنڈم کے ذریعے دوسرا فیصلہ کریں گے کہ انہیں آزاد ریاست بنانی ہے یاپاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے؟1948میں کشمیر کا مسئلہ حل کرانے میں اقوام متحدہ سے مدد لینے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہروگئے تھے جب کشمیر میں مجاہدین سرینگر کے بہت قریب پہنچ چکے تھے اور بھارتی حکمرانوں کو محسوس ہونے لگا تھا کہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگرپر مجاہدین قبضہ کر لیں گے۔ اقوام متحدہ میں بھارت سرکار نے وعدہ کیا تھا کہ کشمیر میں سیز فائر ہوجائے تاکہ پر امن حالات میں رائے شماری کے ذریعے عوام کی مرضی معلوم کی جا سکے کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔بھارت سرکار نے آج تک یہ وعدہ پورا نہیں کیا۔یاد رہے کہ کشمیری بہت پہلے سے ڈوگرا راج کے خاتمہ کی جدوجہد کر رہے تھے۔13جولائی 1931کوبغاوت میں 22کشمیری شہید بھی ہوئے تھے، ان شہداء کی یاد آج تک منائی جاتی ہے۔اسی تناظر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان متعدد جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں۔اس امرمیں بھی کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے کہ آج دونوں ملک ایٹمی قوت ہیں۔ایٹمی قوت کے حامل دو ملک اگر بندوق کے زور پر کوئی فیصلہ کرنا چاہیں تب بھی یہ انتہائی خطرناک اور احمقانہ فیصلہ ہوگا۔اگر کبھی دونوں میں سے کسی ایک ملک نے یہ راستہ اختیار کیا توتباہی کے اثرات سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔لوگ جاپان کے دو شہروں (ہیروشیما اور ناگاساکی) میں ہونے والی تباہ کاری سے کئی گنا بڑی تباہ کاری دیکھیں گے۔اس لئے مناسب یپہی ہے کہ دونوں ملک مذاکرات کے ذریعے اس پرانے تنازعہ کو حل کرنے کی کوشش کریں جو صرف ایک ہے۔۔۔۔ریفرنڈم کا انعقاد!۔۔۔۔بھارت نے 5اگست2019کوآئینی ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کی آئینی شناخت ختم کردی۔اس اقدام کے بعد سے پاکستان میں اپوزیشن لگاتار یہ الزام لگارہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کا سودا کر دیا ہے، اسے مودی سرکار کی گود میں ڈال دیا ہے۔لیکن اپوزیشن یہ دیکھنے کو تیار نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت سے آج تک کرفیو جیسی صورت حال کیوں برقرار ہے؟وزیر اعظم عمران خان کے دو ریفرنڈام کرانے والے اعلان کے بعد ممکن ہے ایک نئی بحث چھڑ جائے اور اسے ہر شخص اپنی پسند کے معنے پہنائے گا اور ہر روز میڈیا کے روبرونت نئے دعوے کئے جائیں گے۔جب کہ سادا سی بات ہے کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق اپنا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔یہ حق کشمیری عوام سے اگر قوت کے بل پرچھینا جا سکتا تو 1948 سے آج تک73برسوں میں یہ عمل کر لیا جاتا۔5اگست کے اقدام کے بعد بھارت سرکار نے ان مسلم کشمیری سیاست دانوں کی ہمدردی بھی کھو دی جو اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ دہلی ان کے ساتھ اسلام آباد کی نسبت بہتر سلوک کرے گی۔وزیر اعظم نے دوسرے ریفرنڈم کا اعلان کرکے ان دبی دبی آوازوں کو خاموش کر دیا ہے جو ”آزادکشمیری ریاست“ کے نام پر تیسرا آپشن دینے کا نعرہ لگاتی تھیں۔اس کے ساتھ ہی کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے جیسے زہریلے پروپیگنڈے کا خاتمہ بھی ہو گیا ہے۔ویسے تو بے بنیاد پروپیگنڈاکسی بھی ملک میں نقصان دہ ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں پاکستان جیسے ملک میں جو بدترین معاشی مشکلات کا شکار ہے، آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔گردشی قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ یہ مسائل اپوزیشن کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ کشمیر تنازعہ اقوام متحدہ کے پاس گزشتہ73برسوں سے موجود ہے مگر بقول ترکی کے صدر طیب اردگان،اقوام متحدہ کوان پانچ ملکوں (برطانیہ، امریکہ، روس،چین اور فرانس)نے یرغمال بنا رکھا ہے۔اس کے معنے یہی پہوتے ہیں کہ جب تک یہ پانچ ملک کسی تنازعے کو حل کرنے کے لئے متفق نہ ہوں اقوام متحدہ اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتی۔دنیا کے نقشے پر آج206ملک ہیں،ٹوکیو اولمپکس میں شرکاء کی تعداد206ہی درج تھی۔سوال یہ ہے کہ یہ پانچ ملک دنیا کے201ملکوں کے چوہدری کیوں بنے ہوئے ہیں؟ترکی، ملایشیاء اور پاکستان نے اس منظر کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو اسلامی برادر ملکوں نے وہ اربوں ڈالر واپس مانگ لئے جو پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے بطور قرض دیئے تھے۔ اسلامی بھائی چارہ بھی یاد نہیں رہا، دوسرے احسانات بھی فراموش ہوگئے۔پاکستان (اور ترکی، ملائیشیاء) نے بھیعالمی برادری میں اپنی قدرو قیمت کا اندازہ لگا لیا،کہ قرض مانگ کر جینے کی کوشش کرنے والوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔پاکستان کے عوام کو اس بے توقیری سے نکالنے کے لئے اپوزیشن اور حکومت دونوں کو مل کر قابل عمل حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔دونوں میں سے کوئی ایک عدوسرے کو نیست و نابود نہیں کرسکتا۔حکومت کتنی بھی طویل کیوں نہ ہوایک دن ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر اعظم عمران خان کو یاد دلایا تھا کہ اگر کوئی سیاسی پارٹی اپوزیشن میں ہو تو کافی دیر تک منگل منگل ہی رہتا ہے لیکن حکومت میں پتہ ہی نہیں چلتا منگل بڑی تیزی سے بدھ اور بدھ جمعرات بنتے رہتے ہیں، تین سال گزر چکے، باقی دوسال کا پتہ نہیں چلے گا۔اس لئے حکومت تو اپنا کام تیزی سے نمٹا رہی ہے، کشمیریوں کو آزاد ریاست کے لئے ریفرنڈم کی پیشکش اسی سلسلے کی کڑی ہے۔سوچنا اپوزیشن کو ہے، آزاد کشمیر میں آج الیکشن ہو رہا ہے، رات تک نتائج سامنے آجائیں گے۔سوال یہ ہے اس کے بعد اپوزیشن حکومت کے خلاف کون سا نعرہ لگائے گی؟کون سا الزام تراشے گی؟ یہ فارمولہ تین برسوں میں بے نتیجہ رہا، آئندہ دوبرس بھی اسی طرح الزام تراشی میں گنوا دیئے گئے تو 2023میں عوام سے ووٹ مانگنا دشوار ہو جائے گا۔اپوزیشن کی پوزیشن اتنی مضبوط نظر نہیں آتی جتنی کہ آئندہ عام انتخابات کے لئے درکار ہوگی۔ضمنی انتخابات کی کامیابی شاید اس وقت فائدہ مند ثابت نہ ہو۔اپوزیشن کو بہتر حکمت عملی اپنے کی حکومت سے زیادہ ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں