نجات دہندہ

تحریر: انور ساجدی

جو عناصر ریاست کے دشمن ہیں وہ موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال پر بہت خوش ہیں ان کے خیال میں عمران خان نجات دہندہ کی صورت میں ان کی دلی مراد پورا کرکے دم لیں گے۔کچھ عرصہ قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے پاکستان کے سیاسی عدم استحکام اور ایٹمی پروگرام کو جوڑ کر اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا چند روز قبل معتبر اخبار فنانشل ٹائمز نے اپنے ایک طویل تجزیہ میں لکھا کہ دنیا ایک غیر مستحکم ایٹمی پاکستان کے عدم استحکام کے مضمرات کیلئے تیار رہے یہ مضمرات کیا ہیں؟ یہ عالمی تجزیہ نگار پہلے بھی نشاندہی کرچکے ہیں اس واضح اعلان کے باوجود کہ پاکستان کا کمان اینڈ کنٹرول سسٹم بہت مضبوط ہے جس کی وجہ سے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں لیکن مغرب کے کئی ممالک کو اس کا یقین نہیں ہے اور وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں یہ انتہا پسندوںکے ہاتھ لگ نہ جائیں جس سے دنیا کسی بڑی تباہی سے دوچار نہ ہوجائے۔ویسے بھی یہ خطہ آتش فشاںبن چکا ہے پاکستان کے پڑوس میں ہندوستان ایک ایٹمی طاقت ہے ہمالہ کے اس پار چین خطہ کی سب سے بڑی فوج اور سب سے زیادہ ایٹمی وار ہیڈ رکھتا ہے وہ ویٹوپاور بھی ہے پاکستان کے جنوب میں واقع ایران بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرچکا ہے جبکہ روس تو پہلے سے بہت بڑی ایٹمی طاقت ہے اس خطے میں صرف پاکستان اور ایران ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں اگرچہ مغرب کا یہ کہنا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں درست نہیں لگتا لیکن فنانشل ٹائمز کے مطابق عمران خان جس طرح تیزی کے ساتھ پاکستان کو تباہی کی جانب لے جارہے ہیں اس کے نتیجے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے دو پڑوسی ممالک افغانستان اور ایران پرانتہا پسند ملائوں کا راج ہے جو دنیاسے کٹ کر رہ گئے ہیں اور اپنے برانڈ کا نظام چلارہے ہیں مغرب کے پیش نظر یہ واقعہ بھی ہے کہ افغان خانہ جنگی کے دوران اسامہ بن لادن نے غالباً حامد میر کو انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے ایٹمی اسلحہ حاصل کرلیا ہے جس پر ایک کہرام برپا ہوگیا تھا کہ کہیں القاعدہ نے یہ اسلحہ پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں کے ذریعے تو حاصل نہیں کیا؟ اور یہ بھی امر واقعہ ہے کہ جنرل کیانی کے دور میں انتہا پسند گروپ جی ایچ کیو کے اندر گھس گیا تھا اور اس گروپ کا خاتمہ تین دن کی کوششوں کے بعد ہوا تھا کئی دیگر حساس تنصیبات پر بھی حملے ہوچکے ہیں اب جبکہ عمران خان ہر ملکی ادارے کو کمزور کررہے ہیںتو کیا بعید کہ ہر ادارہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوکر کمزور نہ ہو اگرچہ عمران خان کا واحد مقصد دوبارہ اقتدار کا حصول ہے لیکن اس کیلئے وہ ہر حربہ استعمال کررہے ہیں حتیٰ کہ وہ فوج کے اندر اختلافات پیدا کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں ان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل نے متنازعہ ٹی وی چینل اے آر وائی پر اپنا جو ویڈیو بیان چلایا تھا وہ اس ضمن کا سب سے بڑا ثبوت ہے شہباز گل اگرچہ ضمانت پر آزاد ہیں لیکن ان کا مقدمہ چل رہا ہے اور وہ کسی وقت بھی دوبارہ گرفتار ہوسکتے ہیں اینکر ارشد شریف اسی واقعہ کی وجہ سے ملک سے باہر نکل گئے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے عمران خان پہلے شہباز گل اور ارشد شریف کے واقعات کو سیاسی رنگ دے رہے تھے اب یک نہ شد دوشد کے مصداق وہ اپنے اوپر حملہ اور اعظم سواتی کی تضحیک آمیز ویڈیو اور گرفتاری کے دوران جنسی تشدد کے مسئلہ کو بھی ہوا دے رہے ہیں انہوں نے اپنے اوپر حملہ کی براہ راست ذمہ داری حساس ادارے کے اعلیٰ افسران پر عائد کی ہے اور اپنی رپورٹ میں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو نامزد کیا ہے اس کا مقصد اداروں کو متنازعہ بناکر عوام کے سامنے پیش کرنا ہے حالیہ تحریک کے دوران عمران خان کا طرز عمل بلیک میلنگ پر مبنی ہے انہوں نے زخمی ہونے کے بعد یہ دھمکی بھی دی کہ حملہ کے ذمہ دار ایک اور افسر کا نام بھی لیں گے شک یہ ہے کہ وہ کسی اہم شخص کو اہم منصب پر آنے سے روکنے کیلئے ان پر حملہ کی منصوبہ بندی کا الزام کسی وقت بھی لگاسکتے ہیں عمران خان جب تک دوبارہ برسراقتدار نہیں آتے وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے اور انہوں نے پیشگی اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات تک سڑکوں پر مارچ کریں گے یعنی کئی مہینوں تک وہ موجودہ عدم استحکام کو مزید ہوا دیں گے اگر ان کی مرضی کا چیف مقرر نہ ہوا تو وہ کئی نئے انکشافات کریں گے اور ملک کو جام رکھ کر چلنے نہیں دیں گے عمران خان کے اس طرز عمل سے پاکستان کے دشمن بہت خوش ہیں وہ جانتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام مزید جاری رہا تو پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہوجائے گا ہر طرف سے اس کی امداد بند ہوجائے گی عالمی ادارے مزید قرضے نہیں دیں گے بلکہ واجب الادااقساط کی واپسی کا مطالبہ بھی کریں گے وہ دو صوبوں اور دو حساس علاقوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو وفاق سے لڑانے کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہیں سوال یہ ہے کہ جب دو بڑے صوبے وفاق پر حملہ آور ہوں تو وہ کیسے چلے گا اور ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کیسے آئے گاعمران خان یہ حرکتیں کرکے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں وہ پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ اگر پاکستان بہ حیثیت ریاست فیل ہوگیا تو اس کے تین ٹکڑے ہوجائیں گے حالانکہ اس وقت چار صوبے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کونسا ایک صوبہ دوسرے میں ضم ہوجائیگا جس کے بعد تین ٹکڑے وجود میں آجائیں گے کئی لوگ خیال ظاہر کررہے ہیں کہ وہ گریٹر پنجاب کی جانب اشارہ کررہے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں وہ پشتونخواء کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں جیسے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے تھا۔بہرحال عمران خان کو ’’اصلی تے وڈے‘‘ حکمرانوں نے میدان میں کھلا چھوڑ دیا ہے وہ مسلح افواج سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک سب کو للکار رہے ہیں تازہ بیان میں انہوں نے عدلیہ کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ وہ عوام کا ساتھ دے یعنی عمران خان کا ساتھ دے ایک طرف وہ انصاف اور میرٹ کی بات کرتے ہیں دوسری طرف کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ وہی حقیقی لیڈر ہیں لہٰذا فوج اور عدلیہ ان کے سپورٹ میں آجائیں اس وقت وہ ان اداروں پر معترض ہیں لیکن یہ ادارے ان کی طرف آجائیں تو عمران خان کے خیال یہ عین انصاف کے مطابق ہے ہوسکتا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد عمران خان کے بے چین دل کو قرار آجائے سوشل میڈیا کے مطابق وہ چیف کے امیدواروں میں سے صرف ایک بھی معترض ہیں اگر ان کو نظرانداز کیا جائے تو باقی سب ٹھیک ہیں اگر وہی سنیارٹی اور میرٹ پر پورا اترتے ہیں تو عمران خان میرٹ کی دھجیاں اڑانے پر کیوں مصرہیں گوکہ آرمی چیف کی تقرری کے بعد عمران خان ذرا تحریک میں ٹھہرائو لائیں گے لیکن انتخابات کی تاریخ ملنے تک باز نہیں آئیں گے باالفرض محال اگر الیکشن ہوگئے تو انہیں تحریک انصاف کی جیت سے کم کوئی کامیابی قبول نہیں ہوگی وہ اس کے بعد دوبارہ سڑکوں پر مارچ کریں گے کیا بعید کہ ان کا ایجنڈا ہی یہی ہو آرام سے نہیں بیٹھنا تاوقتیکہ عدم استحکام بھوک افلاس اداروں کے اندر دراڑیں پڑنے کی وجہ سے خانہ جنگی میں تبدیل ہوجائے جس کے بعد دشمنوں کو موقع ملے گا کہ وہ یہ مطالبہ کریں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے عالمی نگرانی میںدیئے جائیں کیونکہ یہ انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں عمران خان اتنے نادان نہیں جو یہ سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں کہ وہ ملک کو جس تباہی کی طرف لے جارہے ہیں اس کا نتیجہ شکست و رنجیت کے سوا اور کچھ نہ نکلے گا۔ادھر کمزور سی حکومت بیمار پڑ گئی ہے وزیراعظم لندن میں فلو کا شکار ہوگئے اور انہیں اینٹی بائوٹکس ادویات لینا پڑرہی ہیں جبکہ وزیرداخلہ کا کمزدور دل بھی جواب دے گیا ہے ڈاکٹر اسے پیس میکر لگاکر چلا رہے ہیں۔معلوم نہیں کہ یہ بیمار اور کمزدور دل حضرات عمران خان جیسی بلا کا مقابلہ کیسے کریں گے اور آرمی چیف کے تقرر سے لیکر دیگر بڑے بڑے فیصلے کیسے کریں گے کیونکہ اس کیلئے بڑے دل اور گردے کی ضرورت ہے جبکہ حکمران دونوں سے خالی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں