خان صاحب انگور کھٹے ہیں؟

تحریر:انور ساجدی

بلوچستان میں جاری انسانی المیہ بڑھتا جارہا ہے عمران خان نے سی پیک منجمد کردیا تھا اس کے باوجود خونریزی بند نہ ہوسکی اب تو ٹی ٹی پی نے بھی سیز فائر ختم کرکے کارروائیاں شروع کردی ہیں بلیلی کے قریب ایک خودکش حملہ میں 5 افراد جان سے گئے اور تین درجن کے قریب زخمی ہوئے کوئٹہ برسوں سے طالبان کا مرکز اور محور رہا ہے گزشتہ ادوار میں امریکہ بار بار الزام لگاتا رہا ہے کہ کوئٹہ شوریٰ ساری کارروائیوں کو کمان کرتی ہے طالبان کے افغانستان پر قبضہ کے بعد یہ توقع ہوچلی تھی کہ کوئٹہ شوریٰ قندھار منتقل ہوجائے گی لیکن آثار بتارہے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی بھی معصوم لوگوں کی جانیں لے کر خونریزی میں اضافہ کا موجب بنے گی۔طویل عرصہ سے جغرافیائی مبصرین اس رائے کا اظہار کررہے تھے کہ تحریک طالبان ایک مذہبی جماعت نہیں ہے بلکہ ایک قوم پرست سیاسی تحریک ہے جس نے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے حال ہی میں طالبان نے عظیم تر افغانستان کا ایک نقشہ جاری کرکے یہ بات ثابت کردی ہے اس نقشے میں حیران کن طور پر پاکستانی حصے کے کشمیر کو افغانی کشمیر ظاہر کیا گیا ہے جبکہ گوادر کے نقشے میں شمولیت اس دیرینہ خواب کا حصہ ہے جو کابل اور قندھار میں دیکھا جاتا رہا ہے حتیٰ کہ اشرف غنی کے دور میں اسی طرح کا نقشہ تیار کیا گیا تھا جہاں تک افغانی کشمیر کا تعلق ہے تو سدوزئی قبائل نے وہاں پر کچھ عرصہ تک سرداری کی ہے کشمیر میں ان کو سدھن کہا جاتا ہے بلکہ ماضی بعید میں پختون اس علاقہ کوسدھنوتی کہتے تھے کشمیر کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے رہنما سردار ابراہیم کا تعلق سدھن قبیلہ سے تھا ان کے صاحبزادے کا نام خالد ابراہیم ہے جواب بھی سیاست میں سرگرم ہیں لیکن تاریخی طور پر کشمیر کبھی افغان وحدت کا حصہ نہیں رہا جب غوریوں اور خلجیوں کی ہندوستان پر حکومت تھی اس زمانے میں تو پورا خطہ ہندوستانی حکومت کے زیر سنگین تھا البتہ 1948ءکی جنگ کشمیر میں فاٹا کے قبائل نے پاکستان کی مدد کرکے موجودہ آزاد کشمیر پر قبضہ کیا تھا اگر اس قبضہ کو کلیم بناکر پاکستانی کشمیر کو افغان وحدت کا حصہ بنایا گیا ہے تو یہ الگ بات جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو اس کا افغانستان سے تاریخی روابط رہے ہیں ہمارے نزدیک بلوچستان کبھی افغانستان کا حصہ یا اس کا باجگزار نہیں رہا ہے حتیٰ کہ جب انگریز یہاں آئے تھے تو کوئٹہ نیابت ریاست قلات کا حصہ تھا اور انگریزوں نے خان قلات سے باقاعدہ اس کو لیز پر حاصل کیا تھا البتہ مشر محمود خان عموماً یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قلات افغانستان کا باجگزار رہا ہے کچھ عرصہ قبل کراچی میں سردار عطاءاللہ مینگل کی برسی کی تقریب سے خطاب کے دوران بھی انہوںنے اس دعوے کا احیاءکیا تھا اور یہ کہا تھا کہ انگریزوں نے غلط طور پر لیزپر لئے گئے علاقوں کو برٹش بلوچستان کا نام دیا تھا حالانکہ اسے برٹش افغانستان یا برٹش افغانیہ کا نام دیاجاناچاہئے تھا شاید نئی نسل کو یاد نہ ہو خان عبدالصمد خان اچکزئی نے چترال تا بولان کا نعرہ لگاکر پشتونخوامیپ کی بنیاد رکھی تھی حالانکہ نہ چترال پورے کا پورا افغان وحدت کا حصہ رہا ہے اور نہ ہی بولان سردار صاحب کی برسی کی تقریب کے دوران میں نے یہ کہا تھا کہ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد جب نواب مری میر بزنجو اور سردار عطاءاللہ مینگل کی نیپ میں شمولیت کے موقع پر ہمارے ساتھیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ چونکہ افغانستان کی بلوچستان پر بری نظرہے اور وہ اس کے ساحلوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے لہٰذا ہم نیپ کا ساتھ نہیں دیں گے اسی وجہ سے بھٹو کا ساتھ دیا گیا تھا اور جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ سندھ بلوچوں کےلئے مدینہ کی حیثیت رکھتا ہے یعنی جائے پناہ وہاں پر بلوچ بڑی تعدادم یں رہتے ہیں جبکہ ثقافتی پیداواری اور جغرافیائی طور پر سندھ اور بلوچستان قدرتی طور پر قریبی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیںبعدازاں جب بھٹو نے بلوچستان پر بلاوجہ فوج کشی کرکے بلوچوں کا قتل عام کیا تو گویا خود بخود بلوچوں کو افغانوں کی جھولی میں ڈال دیا اس آپریشن کی وجہ سے افغانستان نے جائے پناہ کی حیثیت اختیار کرلی بلوچ سرمچاروں کو افغانستان ہی میں رہنے کی اجازت ملتی تھی یہ روایت طالبان کے آنے سے پہلے تک قائم تھی بھٹو نے سندھ اور بلوچستان کے اٹوٹ رشتے توڑ دیئے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھٹو بلوچوں پر قہر ڈھا رہے تھے تو پشتونخوامیپ واحد جماعت تھی جو بھٹو کی اتحادی تھی اور وہ سرکاری آشیرباد سے بولان تا چترال کا نعرہ لگاتی تھی تاکہ بلوچوں کی تحریک کو کمزور کیا جاسکے ون یونٹ ٹوٹنے سے پہلے خان عبدالصمد کو بلوچ بھی اپنا لیڈر مانتے تھے جس کا ثبوت یہ ہے 1930ءاور 1946ءکی آل انڈیا بلوچ کانفرنسوںکی صدارت خان صاحب سے کروائی گئی تھی بہرحال یہ ایک طویل اور بے کار قسم کی بحث ہے آج کے حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے آج دنیا آگے جاچکی ہے یہ 18ویں اور 19 ویں صدی نہیں ہے اس وقت افغانستان پر طالبان کی صورت میں پشتونوں کا غلبہ ہے کراچی ان کا سب سے بڑا شہر ہے کابل اور پشاور سے زیادہ پشتون کراچی میں آباد ہیں حتیٰ کہ پاکستان کا کیپٹل سٹی اسلام آباد بھی آبادی کے لحاظ سے پشتون اکثریت کا شہر ہے ۔قیام پاکستان کے بعد پشتونوں کو پاکستان کے قومی دھارے میں اکاموڈیٹ کردیا گیا ہے وہ خود کو الگ اور افغانیوں کو جدا سمجھتے ہیں گوکہ انہیں مار مار کر اپنے ساتھ ملایا گیا ہے لیکن آج کی مملکت پشتون کے بغیر ادھوری ہے اس تمام قصےمیں محمود خان اور اسفندیار ولی لاحقے کی حیثیت رکھتے ہیں اگرچہ ان کی ایک توانا آواز موجود ہے لیکن یہ آواز جغرافیائی و حدتوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی اگر مستقبل میں جغرافیائی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں تو لینڈلاک افغانستان سے زیادہ اہمیت بلوچستان کی ہے وہ وسط ایشیاءاور مڈل ایسٹ کے راہگزر پر واقع ہے اگرچہ یہ وحدت بھی پشتونوں کی طرح تین ممالک میں منقسم ہے پنجاب میں اس کا ایک بڑا حصہ جبری طورپر اور سندھ کا حصہ بنایا گیا ہے لیکن تاریخ اور جغرافیہ کا جبر مستقبل میں تبدیلیاں لاسکتا ہے زیادہ دور کی بات نہیں کہ آذربائیجان کردستان خوزستان اور بلوچستان کا ایک حصہ ایران میں شامل کرکے اس کا نام پارس سے ایران رکھا گیا تھا کیا بعید کہ آنے والے وقتوں میں یہ مصنوعی جغرافیہ دوبارہ تشکیل پائے ہاں یہ ضرور ہے کہ نہ روس گوادر کے گرم پانیوں تک پہنچ سکا اور نہ ہی افغان پہنچ پائے کوئٹہ سے لیکر گوادر تک اس وقت بھی خون کا دریا بہہ رہا ہے اسے پار کرنا اتنا آسان نہیں ہے سی پیک نے وقتی طور پر اس دریا کے بہاﺅ میں اضافہ کردیا ہے اور مستقبل قریب میں اس میں کمی کا کوئی امکان نہیں یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغان حکومت کےلئے انگور کھٹے ہیں۔پاکستان کی دو نمبر جعلی اشرافیہ کی لڑائی کا فیصلہ نہیں ہوپارہا اہم تبدیلیوں کے باوجود معاملہ جوں کا توں ہے کیونکہ عمران خان جلدی میں ہیں اور کچھ زیادہ ہی حصہ مانگ رہے ہیں اسی لئے انہوں نے پنجاب اور پشتونخواءکی اسمبلیوں کو توڑنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وفاق کمزور ہوجائے ان کے فیصلے نے واقعی وفاق اور اس کے حکمران اتحاد کو بہت بڑے بحران میں مبتلا کردیا ہے بیک ڈور چینلوں پر مذاکرات ابھی تک کامیابی کی طرف گامزن نہیں ہیں کیونکہ عمران خان مارچ میں الیکشن مانگ رہے ہیں جبکہ حکمران اتحاد خوفزدہ ہے اگر مارچ میں انتخابات ہوئے تو اسے گھر جانا پڑے گا بے شک مارچ میں الیکشن ہو یا اگست میں ریاست کا بحران حل ہونے والا نہیں ہے عمران خان آکر کیا جادوئی کمالات دکھائیں گے جو دیوالیہ پن کی شکار معیشت سدھر جائے ہاں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ تمام بحران کے خالق ”باجوہ سر“ تھے خاص طور پر مونس الٰہی نے یہ انکشاف کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ پی ڈی ایم سے معاملات طے ہونے کے بعد باجوہ سر نے کہا تھا کہ آپ لوگ عمران خان کے ساتھ جائیں بات سمجھنے والی نہیں ہے اگر پنجاب عمران خان کو دینا تھا تو اسے مرکز سے کیوں ہٹایا گیا کھوج لگانے کی ضرورت ہے کہ باجوہ سر نے ڈبل پالیسی کیوں چلائی کیا انہیں توسیع چاہئے تھی اور وہ حالات کو ایسے نہج پر لے جانا چاہتے تھے کہ دونوں فریق مجبور ہوجائیں کہ انہیں توسیع ملے بہرحال اس عمل نے ریاست کو بڑے بحران میں دھکیل دیا ہے جس کو حل کرنے میں طویل عرصہ درکار ہے یہ واقعی حیران کن بات تھی کہ زرداری سے آخر شب ملاقات کرنے اور دعائے خیر کے بعد اگلے روز پرویزالٰہی اچانک کیوں عمران خان سے جاملے تھے یہ بات اب مونس الٰہی نے واضح کی ہے پی ڈی ایم والوں کو ان کا شکریہ ادا کرلینا چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں