بلوچستان کے مسائل کا حل نہ ہو نا حکومتی نااہلی ہے‘ سیاسی رہنماؤں

کوئٹہ:بلوچستان کے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل نہ ہونا موجودہ حکومت کی نااہلی کو ثابت کرتا ہے فوری طور پر بلوچستان سے ہی کسی اہل فرد کو قومی مالیاتی کمیشن کا رکن بنا یا جائے این ایف سی کے ساتھ 18ویں ترامیم میں بھی تبدیلی کا راہ ہموار کی جارہی ہے ہم اسلام آباد کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ٹی او ا ٓر قبول نہیں ہم اس کیخلاف قانونی چارہ جوئی کرینگے موجودہ سیٹ اپ میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جس کی ایک ٹیلی فون پر ٹانگے نہ کانپیں بلوچستان میں موجود احساس محرومی کے پیش نظروسائل کے تقسیم میں بلوچستان کے رقبے کو بھی شامل کیا جائے این ایف سی ایوارڈ کے اجراء میں مسلسل تاخیر ہورہی ہے این ایف سی میں صوبوں کا حصہ کم نہیں کیا جاسکتا حکومت جو کررہی ہے وہ آئین کی پامالی ہے دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والے جاوید جبار کو نامزد کیا ہے جو نہ کہ کوئی ماہر معشیات اور نا ہی بلوچستان کی سرزمین سے واقفیت رکھتے ہیں 18ویں ترامیم سیاسی پارٹیوں کی جانب سے متفقہ طور پر فیڈریشن کو مضبوط بنانے کیلئے عمل میں لائی گئی ہم پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے ہیں ان خیالات کااظہار اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ،سابق وزیراعلیٰ بلوچستان رکن اسمبلی نواب اسلم خان رئیسانی،مسلم لیگ(ق) بلوچستان کے صدر شیخ جعفر خان مندوخیل پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی رہنماء سابق صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال،پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر حاجی علی مددجتک،پا کستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی سینئر نائب صدر وسینیٹر سردار یعقوب خان ناصر،عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس حوالے سے صدر مملکت کو اپنا آئینی حق استعمال کرنے کیلئے 19نکاتی خط لکھ دیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی پالیسی میں گوادر سمیت بلوچستان کے جملہ مسائل حل نہ ہوسکے اور نہ ہی پیشرفت ہوئی ہے نااہل حکومت کو مزید رہنے کا حق نہیں ہے وزیراعلیٰ اپوزیشن کو دبانے کی پالیسی پر گامزن ہے اس لئے انہیں ترقیاتی منصوبوں میں شامل نہیں کیا جارہا ہے حکومت عوام کااعتماد کھو چکی ہے اور اب مخلوط حکومت کے جماعتوں کے درمیان بھی کوئی ہم آہنگی نہیں ہے بلوچستان کے کوٹے پر غیر متعلقہ شخص کو قومی مالیاتی کمیشن کا ممبر بنا یا گیا حکومت فوری طو ر پربلوچستان کے کسی اہل فرد کو قومی مالیاتی کمیشن کا ممبر بنائیں 230ارب روپے کی امداد میں سے بلوچستان کو ایک ارب روپے تک نہیں مل سکا جس کی وجہ سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں اور حکومت کی نااہلی اور نا لائقی آشکار ہورہی ہے۔نواب اسلم خان رئیسانی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے این ایف سی ایوارڈ کی جو ٹی او آر بنائیں ہیں وہ سی سی آئی میں پیش ہونے چاہیے تھے این ایف سی کے ساتھ ساتھ 18ویں ترامیم میں بھی تبدیل کی راہ ہموار کی جارہی ہے ہم اسلام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم میں یہ ٹی او آر قبول نہیں ہم اس کیخلاف قانونی چارہ جوئی کرینگے انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان بھی دہشتگردی کیخلاف جنگ کا حصہ ہیں اسے بھی اضافی 2 فیصد ملنے چاہیے ہم اس وقت اپنے سیکورٹی پر 40ارب روپے خرچ کررہے ہیں جبکہ وفاق سے موصولات نہیں مل رہے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے لوگ کہتے ہیں انہوں نے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کو نیویارک بنا دی ہے جبکہ انہیں حقائق دیکھنے چاہیے 2008میں ہماری حکومت نے 38ارب روپے کیش ہینڈچھوڑیں جبکہ 20ارب کا اور ڈرافٹ کروایا بلوچستان سے متعلق فیصلے یہاں کے معروضی سیاسی،سماجی حالات کے مطابق ہونے چاہیے۔شیخ جعفر مندوخیل نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان مضبوطی کے ساتھ کیس لڑنے کیلئے بلوچستان کو سیاسی طور پر مضبوط پوزیشن رکھنے والے سیاسی رہنماء کو نامزد کیا جائے تاکہ وہ این ایف سی ایوارڈ کیلئے منعقدہ اجلاس میں صوبے کے حقوق کابھر پور دفاع کرسکیں موجودہ سیٹ اپ میں ایک بھی ایسا مضبوط شخص نہیں جس کی ایک ٹیلی فون پر ٹانگیں نہ کھانپیں بلوچستان میں موجود احساس محرومی کے پیش نظر وسائل کی تقسیم میں بلوچستان کے رقبے کوشامل کیاجائے انہوں نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ اس بار بلوچستان کے غربت انڈیکٹرز کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کا پورا حصہ فراہم کریں اور صوبائی حکومت این ایف سی ایوارڈ کے رقم کے ساتھ کھیل نا کھیلیں اور بندربانٹ بند کریں تاکہ یہ صوبے میں ضرورت کے تحت صحیح معنوں میں استعمال ہوسکے انہوں نے کہا ہے کہ صوبے کے اہم ترین کیس کا دفاع کرنے کیلئے وزن دار شخص کی ضرورت ہے جو جاوید جبار نہیں ہے اس وقت حکومت میں لوگ پسند وناپسند کی بنیاد پر پیٹھے ہیں حکومت نے کورونا وائرس کی آڑ میں 7ارب روپے کہاں خرچ کئے معلوم نہیں ہم 18ویں ترامیم کو کسی صورت نہیں چھیڑنے دینگے۔عبدالرحیم زیارتوال نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کے نامزد کردہ رکن صوبے سے تعلق نہیں رکھتے وہ یہاں کی معاشرتی،معاشی،جغرافیائی صورتحال سے ا ٓگاہ نہیں یہ نام کسی اور کی ایما پر دیا ہے جاوید جبار این ایف سی کیلئے قابل نہیں ہے ہم ان کا نام مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کا نام واپس لیا جائے صوب سے تعلق رکھنے والے قابل شخص کو این ایف سی کا ممبر بنا یا جائے ہم کسی صورت میں 18ویں ترامیم کو رول بیک نہیں کرنے دینگے اگر ایسا کچھ کیا گیا تو پھر ہم نئے آئین کی بات کرینگے انہوں نے کہا ہے کہ کورونا وائرس صوبے بھر میں پھیل چکا ہے سلیکٹڈ حکمرانوں نے عوامی نمائندوں کی حیثیت نوکر بنا دی ہے بلوچستان کو رقبے کے لحاظ سے زیادہ فنڈ ملنے چاہیے انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں ملک اور قوم کے مفادات کو پس پشت ڈال کر مقتدر قوتیں ایک رات میں پارٹی تشکیل دیکر اپنی مرضی کی حکومت قائم کر کے لوگوں کے مفادات کو ملیامیٹ کرتے ہیں اس لئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی بھی قابل شخص کو این ایف سی کیلئے نامزد کیا جائے جو بلوچستان کے حقوق کے حصول اورمفادات کا دفاع کرسکیں۔علی مدد جتک نے کہا ہے کہ دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والے جاوید جبار کو نامزد کیا ہے جو نا کہ کوئی ماہر معشیات اور نہ ہی بلوچستان کی سرزمین سے واقفیت رکھتے ہیں ان کا کوئی سیاسی اثر سوخ نہیں ہے انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی انسانیت اور جمہوریت کی سیاست کرتی ہے ہم صوبے کے حقو ق کا سودا نہیں ہونے دینگے اور این ایف سی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی بھی دبنگ شخص یا رہنماء کو ممبر نامزد کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔سردار یعقوب ناصر نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کیلئے این ایف سی ایواڑڈ میں زیادہ شیئر حاصل کرنے کیلئے اپنا کردارادا کریں انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان جو کہ پاکستان کا رقبے کے اعتبار سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا اور قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ ہے بلوچستان حکومت نے جاوید جبار کو کس طرح بلوچستان سے این ایف سی کا کیس لڑنے کیلئے ممبرن نامزد کیا ہے حالانکہ اس کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں بلوچستان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے کسی شخص یا ممبر کو نامزد کر کے صوبے کا کیس حقیقی معنوں میں لڑنے اور اس کادفاع کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے۔انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ہمارے پارٹی نے 18ویں ترامیم سے لیکر این ایف سی 2020میں بلوچستان سمیت وفاق کی اکائیوں اورفیڈریشن کی مضبوطی میں اپنا کلیدی کرداراد کیا اور چھوٹے صوبوں پارٹیوں کے ساتھ ملکر 18ویں ترامیم کو حقیقی معنوں میں منظور کر کے تمام صوبوں کو صوبائی خود مختاری دیتے ہوئے فیڈریشن اکائیوں کو مضبوط بنا یا بلوچستان کے حقوق کے حصول میں اپنا کلیدی کردارادا کیا ہے تاکہ بہتر اقدامات اٹھاتے ہوئے غلط اقدامات کی روک تھام کو یقینی بنا یا جاسکے اس کیلئے ہم اپنا کردار اداکرتے رہیں گے اپوزیشن نے صوبائی حکومت کی خاتمے کیلئے صدر مملک کو جو خط لکھا ہو غیر آئینی اورغیر جمہوری ہے اپوزیشن کو حکومت کے حوالے سے تحفظات ہے تو آئین میں تبدیلی کیلئے تحریک عدم اعتماد کا آپشن موجود ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں