امریکا میں مظاہرين کے ساتھ ساتھ ميڈیا بھی زیر عتاب

امریکا میں میڈیا پر تشدد، نفرت اور طنز اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح آزادی صحافت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی میڈیا مخالف حکمت عملی کی دیگر مغربی جمہوری ریاستوں میں بھی تقلید کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

جمہوریت خطرے میں ہے، اور یہ کوئی پوشیدہ خطرہ نہیں ہے: پوری دنیا میں آزادی صحافت پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ آمرانہ حکومتوں کے برعکس مغربی جمہوری ریاستيں گرچہ شاذ و نادر ہی اس طرح کے کاموں ميں اپنے ہاتھ گندے کرتی ہیں لیکن اس وقت مغربی جمہوری ریاستيں بھی اس صف ميں شامل ہیں۔

امریکا اور برازیل میں ریاست کی طرف سے گرچہ زباں بندی اور سنسرشپ کے واضح احکامات نہيں ہيں۔ اس کے بجائے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر جيئر بولسونارو جعلی خبروں کو پھیلاتے ہوئے اور میڈیا سے دشمنی پیدا کرنے والی بیان بازی کو بروئے کار لا کر سماجی تقسیم اور تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔

میڈیا بطور دشمن
بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی جرمن شاخ کے ڈائریکٹر کرسٹیان میہر نے بتایا، ”ٹرمپ مسلسل میڈیا کی تصویر ایک خوفناک دشمن کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں ہم نے امريکا ميں صحافیوں پر مجموعی طور پر 68 حملے ریکارڈ کیے ہیں۔‘‘

اگر اس تعداد ميں آن لائن پلیٹ فارم ‘یو ایس پریس فریڈم ٹریکر‘ پر دستاویزی شکل ميں موجود پریس کے نمائندوں پر ہونے والے 26 دیگر حملوں کو بھی شامل کر لیا جائے، تو رواں سال کے آغاز سے اب تک صرف امریکا میں ہی اس طرح کے تشدد کے 94 واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔

کرسٹیان میہر نے کہا کہ وہ امریکا ميں اس رجحان کو تیزی سے بڑھتا ہوا ديکھ رہے ہیں۔ ان کے بقول، ”میڈیا کو قیاس آرائیوں پر مبنی ‘نظام‘ کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”اس خیال کی ٹرمپ اور بولسونارو جیسے عوامیت پسند صدور نے جان بوجھ کر حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ دونوں رہنما یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ اس ‘نظام‘ کو روک سکتے ہیں اور اس کے باوجود حکومت کر سکتے ہیں۔‘‘
کونسل آف یورپ کی تنبیہ

یورپ میں بھی صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز پر حملے بڑھ رہے ہیں۔ تحفظ صحافت کے فروغ کے لیے کونسل آف یورپ کے ایک بہت سرگرم پلیٹ فارم کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق اس کونسل کے 47 رکن ممالک میں سے 25 میں صحافیوں پر مجموعی طور پر 142 سنگین حملے کیے گئے۔

اپنے 2020ء کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں آر ایس ایف نے بلغاریہ، رومانیہ، ہنگری، پولینڈ، یونان، کروشیا، مالٹا اور برطانیہ میں میڈیا کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات سے خبردار کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ برطانوی حکام باقاعدگی سے پریس کی آزادی پر پابندی عائد کرتے ہیں اور اکثر اس کا جواز قومی سلامتی کو بناتے ہیں۔ 2018ء میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے صحافیوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی کو آزادی رائے اور آزادی صحافت کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں