کوہ سلیمان کے حسن کو بچائیں

زوراخ بزدار
پہاڑ اور پھر ان پہ درخت اور سبزہ اگر انکے ساتھ موسم بھی اچھا ہو تو کیا کہنے.یہ سب وہ چیزیں ہیں جن سے انسان کو محبت نہیں بلکہ عقیدت سی ہے. دنیا میں وہ ممالک جو ایسے قدرتی مناظر جس میں پہاڑ ان پہ سبزہ درخت اور ساتھ ساتھ موسم اچھا ہو سیاحت کے لیے نمبر ایک پہ مانے جاتے ہیں.دور کی بات نہیں کشمیر جس کو جنت نظیر کہا جاتا ہے وہاں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں پہاڑ ہیں سبزہ ہے چشمے ہیں درخت ہیں.
انسان جدھر دیکھتا ہے ہریالی ہی ہریالی ہے اور ساتھ ساتھ موسم بھی کافی اچھا ہے.دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں کی تعداد میں سیاح ہرسال کشمیر آتے تھے مگر اب شاید سیکورٹی خدشات سے کم آتے ہوں مگر پھر بھی بہت سے آتے ہیں. اب تو کرونا بھی آگیا. ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا.مگر افسوس کوہ سلیمان بھی ایسے ہی مناظر اپنے سینے پہ سجائے دنیا کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہے.یہاں سکیورٹی کا کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے اور یہ کرونا بھی چند دن بعد اپنا خراج وصول کرکے رخصت ہوگا. دکھ اس بات کا ہے کہ اگر کوئی چیز بہت ہی اچھی ہو آپ اسکی تعریف نہ کریں. اور مسلسل اسکو نظر انداز ہی کرتے رہیں. ایک دن اوروں تو کیا اپنوں کی نظروں میں بھی گرجاتی ہے.یہی معاملہ کوہ سلیمان کے ساتھ ہوا صدیوں کے انتظار کے بعد جب وہاں کے لوگوں نے دیکھا کہ اس چمن کی رونقیں آنکھوں کو ٹھنڈک تو پہنچا سکتی ہیں مگر پیٹ کی آگ نہیں بجھا سکتیں.تو انہوں نے وہاں سے نقل مکانی شروع کی آج وہاں کسی گھر کے سامنے سے گذریں آپکو گھر نہیں مکان دکھاء دے گا. جسے بلوچی میں بھانڑ یا بانڈو کہتے ہیں.
بقول شاعر صیذ خان بزدار.
خالی مرگ طوطائیں اڈروں ولانی لذاں
پہرثو جیذاں سہڑغوں دارانی سراں
ڈا مں دہ تء کوہیں بانڈواں جکھانا گذاں.
ترجمہ.
میں ٹھہر ٹھہر کر تیرے ویران گھر کے منظر کو دیکھ رہا ہوں.
یہاں طوطے اور باقی طرح طرح کے پرندے ہیں جو دن کو ادھر چگنے کے لیے جاتے ہیں
اور شام کو محبوب کے خالی گھر میں انکا بسیرا ہوتا ہے.جو چلے گئے انکے آشیانوں کا یہی منظر ہے
جو لوگ باقی بچے وہاں اپنے گذر اوقات کے لئے انہوں نے جنگل کو کاٹ کاٹ کر بیچنے کو ذریعہ معاش بنا لیا.جو ایک المیہ سے کم نہیں. مکاں مکیں کے شان کی علامت ہے اگر مکان خوبصورت و دیدہ زیب تھا اور اسکو اپنے ہاتھوں برباد کردیا گیا تو پھر گلہ کس سے اور شکوہ کس سے.جب جنگل نہ رہا تو اب پرندوں اور جانوروں نے بھی نقل مکانی شروع کی جہاں کبھی تیتروں کو صبح تڑکے کی آواز دن کو بلبلوں اور فاختاؤں کے نغمے شام اور رات کو چکوروں کی محسور کن بولیاں ماں کی لوری سے بھی پیاری لگتی تھیں وہاں اب سیاہ پتھر ہیں.کوہ سلیمان کے درخت شاید باقی دنیا کے پہاڑوں میں کم ہوں یا بالکل ہی نہ ہوں.
یہاں کے مئیور، گرگول، زیتون، اور انکے پھل.
یہاں کے کھؤر، کھیر کٹوخ، بڈنڑ، پھر پھغ، تْلّی،
اور بھی ہزاروں درخت بیل بوٹے کمال کے ہیں.
یہاں کی جڑی بوٹیاں انکے پھول انکے رنگ و خوشبو تو اتنے دلفریب ہیں کہ تعریف کے لئے الفاظ نہیں.
پھر چشموں کا پانی آب حیات کی طرح ہے.
اس وطن کے باسیوں سے التجاء ہے کہ اس حسن کو برباد نہ کریں.
یہ کوہ سلیمان ایک پہاڑ نہیں.یہ ہزاروں عشاق کی محبوبہ ہے بلوچ اور پٹھان اس سے اسی طرح سے محبت کرتے ہیں جس طرح توکلی سمی سے یا مرید حانی سے محبت کرتا تھا.چاکر و گہرام اور بیورگ و بالاچ جیسے اس مٹی کے سپوت تھے. یہ مست کا مسکن ہے شئے مرید کا دیس چگھا کے آنکھوں کی ٹھنڈک رحمان جوانسال اور رحملی نے اسی کے گود میں جنم لیا. اسکے کوہساروں اور مرغزاروں میں نفسک اور حان بند کے شہیدوں کا خون شامل ہے.
اس میں سہری، توکلی اور بہیو محو استراحت ہیں.
حیف ہے تم پہ کیا تم ان سب کے وراث نہیں ہو.
کیا ہم سب کے باب دادا کی آخری آرام گاہیں یہاں نہیں.
اگر یہ سب سچ ہے تو کیوں تل گئے ہو اسکی بربادی پر.
کیوں غلام قادر بزدار کی اس دعا کے ساتھ مذاق کررہے ہو.
شاد باثئے سوز باثئے کوہ سلیمانے پواد.
تء جہل بڑزانی نیامء َ زندگانی ایں آزاد.
ترجمہ
اے کوہ سلیمان تو شاد و آباد رہے
تیرے شرق غرب میں زندگی آزاد ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں