بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ، زرعی آمدن پر ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ

کوئٹہ:بلو چستان اسمبلی نے صوبے میں زرعی آمدن پر ٹیکس کو ختم کرنے یا پھر ٹیکس کی شرح 5فیصد سے کم کر کے 1فیصد کر نے کی قرارداد سمیت تین قراردادیں منظور کرلیں ۔جمعرات کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 2گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا اجلاس میں صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے رکن اسمبلی ثناءبلوچ کی جانب سے اٹھائے گئے نقطہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ سیلاب کے دوران وفاقی حکومت سے صوبے کو مالی پیکج فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا اس سلسلے میں چیف سیکرٹری بلوچستان اور وزیراعلیٰ بلوچستان خود اسلام آباد گئے اور وہاں حکام سے ملاقاتیں کیں وفاقی حکومت نے پہلے سولہ ارب اس کے بعد اس رقم میں بتدریج کمی کرتے ہوئے چودہ اس کے بعد آٹھ اور پھر دو ارب روپے کا اعلان کیا مگر ایک روپیہ بھی فراہم نہیں کیا گیا انہوں نے کہاکہ بیج کے چار لاکھ بیگز زمینداروں میں محکمہ زراعت نے نہیں بلکہ سی ایم آئی ٹی کی نگرانی میں متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز ، کمشنرز اور ڈائریکٹر زراعت پر مشتمل کمیٹی نے تقسیم کئے ہیں انہوں نے کہاکہ جہاں تک تقسیم کے اس عمل میں گڑ بڑ ہوئی ہے، ہم اسکی تحقیقات کررہے ہیں معاملہ نیب کے حوالے کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ خاران اور پنجگور کے حوالے سے بھی سی ایم آئی کو تحقیقات کا کہا ہے جمعیت علماءاسلام کے رکن اسمبلی اصغر ترین نے پشین میں نادرا آفس میں سہولیات اور عملے کی کمی کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ پشین میں نادرا کے نظام میں مختلف مسائل سامنے آرہے ہیں اس حوالے سے میں نے ڈی جی نادرا سے بھی ملاقات کرکے ان مسائل کی نشاندہی کی معاملہ وزیراعلیٰ کے نوٹس میں بھی لایا گیا حلقے کے رکن قومی اسمبلی نے بھی متعلقہ حکام سے بھی رابطہ کیا ہے وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری نے اس ضمن میں چیئرمین نادرا سے بھی بات کی ہے جس پر ڈی جی نادرا برہم ہوگئے ہیں کہ چیئرمین نادرا سے کیوں رابطہ کیا گیا انہوں نے کہاکہ ایک شناختی کارڈ کو اپلوڈ کرنے میں ایک گھنٹے تک کا وقت لگتا ہے عملے کی کمی کے باعث لوگوں کو شناختی کارڈ کے حصول میں شدید دشواریاں پیش آرہی ہیں بجلی لوڈ شیڈنگ کا متبادلہ نظام نہیں ہے انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے استدعا کی کہ ڈی جی نادرا بلوچستان کو اسمبلی میں طلب کرے رکن اسمبلی واحد صدیقی نے بھی اصغر ترین کے موقف کی تائید کرتے ہوئے استدعا کی کہ ڈی جی نادرا کے سامنے ب فارم کا مسئلہ بھی اٹھایا جائے۔ بی این پی کی رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار نے کہاکہ 2017میں انہوں نے اس کے وقت کے ڈجی نادرا کے تعاون سے مستونگ میں موبائل وین کے ذریعے پانچ ہزار خواتین کے شناختی کارڈ بنوائے اسی طرح قلات اور دیگر اضلاع میں شناختی کارڈ بنوائے گئے ہیں مگر گزشتہ تین سالوں سے انہوں نے ڈی جی نادرا کو موبائل وین فراہم کرنے کیلئے درخواست دی ہے مگر اس کو کچرے کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے استدعا کی کہ وہ رولنگ دے کہ یہ ایم آر ڈی موبائل وین کہاں استعمال ہورہے ہیں ڈی جی نادرا سے اسکی تفصیلات بھی طلب کی جائیں۔ بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر نے ڈی جی نادرا بلوچستان کو آئندہ ہفتے پیر کے روز بلوچستان اسمبلی طلب کرلیا۔ اجلاس میں رکن بلوچستان اسمبلی میر ظہور بلیدی نے ثنائ بلوچ کے پوائنٹ آف آرڈر پرکی گئی باتوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ موصوف وزرائ کا دفاع کررہے ہیں یا بیروزگار نوجوانوں کی بات کررہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اسمبلی کے سامنے گھنٹی لٹکائی جائے یہ اکیسویں صدی ہے انہوں نے کہاکہ نوجوان خود کشیاں کررہے ہیں زبان زد عام ہے اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ نوکریاں مشتہر کرنا کوئی بڑی بات نہیں ان ملازمتوں پر اہل لوگوں کی تعیناتیاں بڑی بات ہے اس دوران اپوزیشن اراکین نے ایوان سے واک آ¶ٹ کیا۔ بعد ازاں دوبار لوٹ کر آگئے۔ وزیراعلیٰ کے پارلیمانی سیکرٹری برائے اقلیتی امور خلیل جارج نے کہا کہ آج ملک بھر میں یوم تکریم شہدائ منایا جارہا ہے جسکا مقصد ان شہداءکا خراج عقیدت پیش کرنا ہے جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیکر ملک کی سلامتی کو یقینی بنایا انہوں نے کہاکہ نو مئی کے واقعات افسوسناک ہیں پوری قوم اپنے شہدائ کے ساتھ کھڑی ہے انہوں نے ایوان سے استدعا کی کہ یوم تکریم شہداءپر شہداءکو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایک مشترکہ قرار داد بلوچستان اسمبلی سے منظور کرائی جائے۔ صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے کہاکہ آج ایک انتہائی اہم دن ہے پورے ملک میں یہ دن منایا جارہا ہے شہداء ہمارے قومی ہیرو ہیں انہوں نے ایک بہت بڑے کاز کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ملک کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنایا ہے انہوں نے کہاکہ آج کا دن تجدید عہد کا دن ہے کہ ہم اپنے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے جس عزیم مقصد کیلئے قربانیاں دیں ہیں ہم بھی یہ عہد کریں کہ ان کی قربانیوں کو مشعل راہ بنا کر کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ گلزار امام شمبے کی گرفتاری اداروں کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ بیروزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کے غلط راستے پر چلنے کا تاثر غلط ہے اگر کوئی وزیر ملازمتوں کے پیسے لے رہا ہے کم از کم اسکی نشاندہی ہی کرلیں۔ ہمارے اداروں میں نوجوانوں کو ہزاروں ملازمتیں میرٹ پر دی گئی ہیں جو بیروزگاری کے خاتمے کیلئے حوصلہ افزا اقدام ہے انہوں نے کہاکہ صوبائی کابینہ نے بی ڈی اے کے ملازمین کو مستقل کرنے کی منظوری دی ہے تاہم بیورو کریسی اس میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ اقلیتی رکن مکی شامل لال لاسی نے 9مئی کو ہونےوالے پر تشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ حکومت ان واقعات میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے ہم اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں انہوں نے کہاکہ بلوچستان میںاقلیتی لڑکیوں کو اغواءکرکے جبراً انکا مذہب تبدیل کرکے ان سے شادیاں کی جارہی ہیں مگر ہماری کہیں شنوائی نہیں ہورہی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی ایک ویڈیو کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ جیکب آباد سے اغوا برائے تاوان کیلئے ایک بچے پر بد ترین تشدد کیا جارہا ہے جو ملکی بدنامی کا باعث ہے مگر ویڈیو وائرل ہو جاتی ملزمان گرفتار نہیں ہوتے ہیں جس پر ڈپٹی اسپیکر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اقلیتی خواتین کے جبراً مذہب تبدیل کرانے کے حوالے سے انہوں نے وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ میں سے کسی ایک سے رابطہ کیا ہے جس پر مکی شام لال نے کہاکہ ہماری کہیں نہیں سنی جاتی جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہاکہ وہ وزیر داخلہ ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ سے رابطہ کرے اگر پھر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو اسمبلی اس کا نوٹس لیگی انہوں نے کہاکہ آئندہ اجلاس میں سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا گیا ہے ان کے سامنے بھی معاملہ اٹھایا جائیگا۔ اجلاس میں پشتونخو امیپ کے رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ پی پی ایچ آئی کے ملازمین پیرامیڈیکل اسٹاف سولہ سالوں سے کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کررہے ہیں اور اپنی خدمات صوبے کے مختلف بی ایچ یوز میں سر انجام دے رہے ہیں انکی مستقلی کی بابت حکومت کی جانب سے متعدد بار یقین دہانی کے باوجود کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں جس کی وجہ سے پی پی ایچ آئی کے ملازمین میں مایوسی اور احساس محرومی پایا جاتا ہے لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ پی پی ایچ آئی کے ملازمین کو فی الفور مستقل کرنے کے بابت عملی اقدام اٹھائے تاکہ ان میں پائی جانیوالی احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے نصر اللہ زیرے نے کہا کہ سولہ سال سے 24سے زائد ملازمین اپنی خدمت سر انجام دے رہے ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان نے نصیب اللہ مری کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کرکے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ایک ماہ میں سیلری تیار کی جائے گی مگر ملازمین کو مستقل کرنے کے بجائے لورالائی میں ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے انہوں نے کہاکہ اس سے قبل بھی بلوچستان اسمبلی میں ان ملازمین کو مستقل کرنے سے ایک قرار داد بھی منظور ہوئی ہے مگر حکومت ایوان کے تقدس اہمیت نہیں دیتی انہوں نے مطالبہ کیا کہ فی الفور ملازمی کو مستقل کیا جائے اور چیف سیکرٹری کو اس قرار داد پر عمل درآمد کرانے کا پابند کیا جائے۔ وزیراعلیٰ کے پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے رکن اسمبلی قادر علی نائل کی عدم موجودگی کے باعث انکی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہاکہ صوبے میں زرعی آمدن پر پانچ فیصد کے حساب سے ٹیکس لاگو ہے جبکہ دوسری جانب زراعت کے حوالے سے اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں خصوصاً کاشتکاروں کو فرٹیلائزر، ڈیزل، ٹریکٹر و دیگر زرعی مشینری وغیرہ کے پرزہ جات کی مد میں بھاری اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں مزید براں جن علاقوں میں ٹیوب ویل کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے یا مشینوں کے ذریعے لفٹ کیا جاتا ہے وہاں بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں حد درجے اضافہ ہوا ہے واضح رہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور اکثر علاقوں میں زمیندار نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں مالی اخراجات اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کاشتکاروں اور زمینداروں کی آمدن اور بجت نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے انہیں ٹیکسز ادا کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں لہذا زمینی حقائق اور موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ حکومت زرعی ٹیکس کی شرح پانچ فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کرکے یقینی بنائیں تاکہ زمینداروں کو سہولیات میسر ہوں اور زراعت کا شعبہ بحالی کی جانب گامزن ہوسکے۔ قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے کہاکہ بلوچستان کی اسی فیصد آبادی لائیو اسٹاک اور زراعت سے وابستہ ہے اور یہی ان کے روزگار کا ذریعہ ہے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بالعموم پورے بلوچستان بالخصوص نصیر آباد میں تباہ کن صورتحال ہے لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بھاری بھرکم ٹیکس دینے سے قاصر ہیں ایسے حالات میں ٹیکسز کی بھر مار سے صوبے کی 90فیصد آبادی بیروزگار ہوجائے گی حکومت زراعت کے شعبے کی سربراہی کرتے ہوئے زمینی حقائق کے پیش نظر زرعی آمدن پر عائد ٹیکس ختم کرکے زمینداروں کو مزید سبسڈی اور ریلیف فراہم کریں۔ پشتونخواہ میپ کے نصر اللہ زیرے نے قرر ادا کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ لوڈ شیڈنگ کے باعث بھی زمینداروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اگر حکومت پانچ فیصد ٹیکس ختم نہیں کرسکتی تو کم از کم ایک فیصد ٹیکس مقرر کرے انہوں نے کہاکہ پانی کی سطح نیچے ہونے سے بارہ سو فٹ سے زمیندار پانی نکال رہے ہیں انہوں نے کہاکہ اگر اس صورتحال میں زمینداروں کو ریلیف فراہم نہیں کیا گیا تو صوبے میں بیروزگاری اور اجناس کی قلت میں اضافہ ہوگا۔ صوبائی وزیر آبپاشی محمد خان لہڑی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ سندھ ایک زرعی صوبہ ہے وہاں بھی زمینداروں سے زرعی آمدن کی مد میں صرف ایک فیصد ٹیکس لیا جارہا ہے بلوچستان میں سیلاب سے لوگوں کی زمینیں کاشت کی لائق نہیں رہیں بندات ٹوٹ گئے ہیں اس صورتحال میں زرعی آمدن پر عائد ٹیکس کو ختم کیا جائے انہوں نے ایوان سے استدعا کی کہ مذکورہ قرار داد کو مشترکہ طور پر منظور کیاجائے۔ بی این پی کے رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار نے کہاکہ بلوچستان ایک غریب اور پسماندہ صوبہ ہے زرعی ٹیکس سے صوبے کا واحد زرعی شعبہ بھی ختم ہوکر رہ جائے گا انہوں نے کہاکہ پنجاب اور سندھ میں ٹیکس فری ہے وہاں کے زمینداروں کو کھاد بیج ٹریکٹر دیئے جاتے ہیں کم سے کم یہاں زمینداروں کو اگر یہ سہولیات نہیں دی جاسکتی تو ٹیکس فری کیا جائے۔ پشتونخو امیپ کے رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہاکہ کوئٹہ کی آبادی جو لاکھوں نفوس پر مشتمل ہے مگر اعلیٰ تعلیمی اداروں بالخصوص طالبات کیلئے نہ ہونے کے برابر ہے واضح رہے کہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ گرلز کالج کوئٹہ کینٹ گزشتہ نصف صدی سے زائد تعلیمی میدان میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے اور اس میں تقریبا 10000طالبات علم کے زیور سے آراستہ ہورہی ہیں اور اس وقت بھی ایم ایس اور بی ایس سمسٹر کی کلاسز بھی ہورہی ہیں لہذا یہ ایوان حکومت سے گزارش کرتا ہے کہ شہر کے وسط میں موجود پوسٹ گریجویٹ گرلز کالج کوئٹہ کینٹ کی مذکورہ بالا تعلیمی ضروریات کومد نظر رکھتے ہوئے اسے فوری طور پر خواتین یونیورسٹی کا درجہ دینے کا احکامات صادر فرمائے۔ قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے نصر اللہ زیرے نے کہاکہ خواتین تعلیم یافتہ ہونگی تو معاشرہ ترقی کریگا۔ اگر خواتین ناخواندہ ہونگی تو معاشرے میں جہالت کے اندھیروں کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے کہاکہ گرلز کالج کوئٹہ کینٹ کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ بچیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں۔ یہ ایک تاریخی کالج ہے صوبائی حکومت اس کو یونیورسٹی کا درجہ دے۔ بعد ازاں قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ پشتونخوا میپ کے رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ عثمان خان پر دو مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے ہیں دوسری مرتبہ 22مئی کو میکانگی روڈ پر ان پر حملہ کیا گیا اور کچھ لوگوں کا نام لیکر اس سے کہا گیا کہ انکے انٹرویوز نہ کرے انکار کرنے پر عثمان خان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے میں نے چیف سیکرٹری سے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے کہ وزیر داخلہ، آئی جی بلوچستان ڈی آئی جی کوئٹہ عثمان خان پر حملے میںملوث ملزمان کی گرفتاری کو فوری یقینی بنائیں جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہاکہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے ملزمان کو کٹہرے میں لایا جائے۔ رکن بلوچستان اسمبلی میر عارف محمد حسنی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سنجرانی اور بزنجو برادران زنباد گاڑیوں سے کروڑوں روپے لے رہے ہیں میں نے اپنے دور میں بہت زیادہ کوششوں کے بعد ان ریٹس کو کافی حد تک گرا دیا تھا محنت کرنیوالوں کی کمائی پر ان کا حق ہے کسی اور کا نہیں انہوں نے کہاکہ سنجرانی ٹائیگر فورس کے لوگ ان گاڑیوں سے پیسے وصول کررہے ہیں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے پاس وہ اختیارات نہیں جو لیویز اہلکار کے پاس ہیں انہوں نے کہاکہ بلدیاتی انتخابات میں اکثریت کا دعویٰ کیا جارہا ہے میں یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پینل نے بلدیاتی انتخابات میں بارہ نشستیں جبکہ مخالفین نے گیارہ نشستیں حاصل کی ہیں لوگوں کو پیسوں کی آفر کی جارہی ہے مخالفین نے الیکشن کمیشن میں ہمارے ایک امیدوار کی کامیابی کو چیلنج کیا اور وہاں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ انکے پینل کے امیدوار نے غلطی سے ہمارے امیدوار کو ووٹ دیا ہے مگر حیرت ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی ان کے حق میں آیا جس کے خلاف ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے انہوں نے کہاکہ دو روز قبل بھی چاغی میں سنجرانی برادران نے ایک ریلی نکالی تھی اور آج میری عدم موجودگی کے باوجود وہاں ایک ریلی نکالی گئی دونوں ریلیوں کا موازنہ کیا جائے کہ لوگوں کی اکثریت کس کے پاس ہے بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا۔
کوئٹہ(این این آئی) بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی لیویز کے اہلکاروں کی مراعات کو برقرار رکھنے کی قرارداد پرعدم عملدرآمدپرایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کو طلب کرلیا گیاجمعرات کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 2گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا ۔اجلاس میں جمعیت علماءاسلام کے رکن میر زابد علی ریکی عدم موجودگی پر انکے سوالات کونمٹا دیا گیا جبکہ وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ وزیر کی عدم موجودگی پر پشتونخواءملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے کہا کہ جس بھی وزیر کے سوالات ہوں اس دن متعلقہ وزیر غیر حاضر ہوتے ہیں اس فورم پر وزراءجوابدہ ہیں یہ اچھی مثال نہیں ہے ۔رکن صوبائی اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ وزراءاگر خود موجودنہ ہوں تو وہ کسی دوسرے وزیر سے انکی جگہ جواب دینے کا کہہ سکتے ہیں مگر ایسا نہیں کیا جا تا ۔جس پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے میر عارف جان محمد حسنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہ آپ بھی حکوت میں ہیں اور یہ عمل جانتے ہیں وزیر پی ایچ ای کی جانب سے آپ جواب دے دیں جس پر میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ ایوان میں مجھ سمیت صرف 4ارکان اپوزیشن میں ہیں باقی سب حکومت کا حصہ ہیں شیڈو وزیراعلیٰ بھی ایوان میں موجود ہیں وہ جواب دے سکتے ہیں ۔بعدازاں سوالات کو وزراءکی عدم موجودگی پر موخر کردیا گیا ۔اجلاس میں پشتونخواءملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے توجہ دلاﺅ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ کی توجہ وفاقی لیویز فورس کے سروس سٹرکچر کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ 29ستمبر 2022کی اسمبلی نشست میں باقاعدہ طور پر قرار داد نمبر 148منظورکی گئی تھی لیکن محکمہ داخلہ نے تاحال اس بابت کوئی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں جس کووجہ سے وفاقی لیویزفورس کے اہلکاروں میں سخت اضطراب پایا جاتاہے لہذا محکمہ داخلہ کی جانب سے اس بابت اقدامات نہ اٹھانے کی کیا وجوہات ہیں تفصیل فراہم کی جائے ۔ اس موقع پر رکن صوبائی اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ وفاقی لیویز فورس کے اہلکاروں کے ریٹائر یا فوت ہونے کے بعد انکے بچوں کو نوکری ملتی تھی لیکن اس پر عملدآمد فی الحال رکا ہوا ہے۔صوبائی وزیر تعلیم میر نصیب اللہ مری نے کہا سروس سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی لیویز کے اہلکار نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے انکے بچوں کو مکمل سروس ملنی چاہےے ۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے کہا کہ وزیر داخلہ ایوان میں موجود نہیں ہیں لیکن اس حوالے سے محکمہ داخلہ سے جواب طلب کیا جائے گا ڈپٹی اسپیکر نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ بلوچستان کو اسمبلی طلب کرتے ہوئے توجہ دلاﺅ نوٹس کو نمٹا دیا ۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف ملک سکندر خان ایڈوکیٹ نے کہا کہ اپ گریڈیشن کے منتظر استاتذہ جب بھوک ہڑتال پر تھے تو ہم نے انکی ہڑتال ختم کروائی تھی بعدازاں اپ گریڈیشن کمیٹی نے پوسٹوں کی اپ گریڈیشن کی منظوری دی اور کابینہ سے بھی اس فیصلے کو منظور کرلیا گیا ہے مگر اب معاملہ سیکرٹری خزانہ کے پاس تعطل کا شکار ہے کابینہ کے فیصلے کے تحت استاتذہ کی اپ گریڈیشن کی جائے ۔ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے رولنگ دی کہ کابینہ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے استاتذہ کی اپ گریڈیشن کی جائے ۔اجلاس میں نقطہ اعتراض پر رکن صوبائی اسمبلی میر ظہور بلیدی نے کہا کہ آج یوم تکریم شہداءمنایا جارہا ہے ہر پاکستانی پر فرض ہے کہ وہ شہداءکی تکریم کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کرے ۔انہوں نے کہا کہ گلزار امام شمبے زئی کی گرفتاری حساس اداروں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظہر ہے ۔جس طرح انہوں نے اعتراف جرم کیا کہ وہ 15سال سے پہاڑوں میں ایک تنظیم چلا رہے تھے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں بیٹھ کر ملک دشمن قوتیں سازشوں میں مصروف ہیں اور نوجوانوں کو ورغلا رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ گلزار امام نے بھی نشاندہی کی ہے کہ صوبے میں بے روزگاری اور فنڈز عوام تک نہیں پہنچتے انہی وجوہات کی بناءپر نوجوان نظام سے متنفر ہیں صوبے میں 25سے 30ہزار آسامیوں پر بھرتی کا عمل شروع کیا گیا لیکن گزشتہ دونوں بہاﺅ الدین ذکریا یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کرنے والے نوجوان نے کہا کہ اس سے 11گریڈ کی نوکری کے لئے 11لاکھ روپے رشوت طلب کی گئی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں