امریکا میں نسلی مساوات کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری

امریکا میں نسلی مساوات کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور امریکی صدر ٹرمپ نے پولیس اصلاحات کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں۔امریکی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کی ہلاکت کے بعد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، ریاست ورجینیا کے شہر رچمنڈ میں سیاہ فام افراد کے قتل اور نسل پرستی کے خلاف احتجاج کیا گیا، مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور فائر کریکرز کا استعمال کیا۔ دوسری جانب ریاست میسوری کے شہر سینٹ لوئس میں نصب کرسٹوفر کولمبس کا مجسمہ احتجاجی مظاہرے کے بعد ہٹا دیاگیا۔سیاہ فام افراد کے قتل کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد امریکا بھر میں پولیس اہلکاروں نے اسستعفے دینا شروع کر دیے ہیں۔مینی پولس شہر کے ترجمان کے مطابق اب تک 7 پولیس اہلکار مستعفی ہو چکے ہیں جب کہ اٹلانٹا پولیس نے بھی ایک ماہ میں 8 پولیس اہلکارو ں کے استعفے کی تصدیق کی ہے۔جنوبی فلوریڈا میں ایس ڈبلیو اے ٹی یونٹ کے 10 اہلکاروں نے استعفیٰ دیا جب کہ نیویارک کے علاقے بوفیلو میں احتجاج کرنے والے بزرگ شہری وک کو دھکا دینے پر 2 اہلکاروں کو معطل کرنےکے خلاف احتجاجاً پولیس کی ایمرجنسی ریسپانس ٹیم کے 60 اہلکاروں نے اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا۔ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لا اینڈ آرڈر کو یقینی بنانے کے دوران پولیس کے اقدامات سے متعلق اصلاحات کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے تنقید کے باوجود ایک بار پھر کہا کہ وہ مینی پولس کی طرح حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے سیاٹل سمیت دیگر شہروں میں نیشنل گارڈز بھیجنے کو تیا ر ہیں، آتش زنی اور لوٹ مار کرنے والوں کو سخت سزا دی جائےگی۔علاوہ ازیں جنوبی افریقا کے دارالحکومت کیپ ٹاؤن میں بھی نسل پرستی کے خلاف احتجاج کیاگیا۔مظاہرین نے پارلیمنٹ کے دروازے پر نصب جنوبی افریقا کے پہلے وزیراعظم لوئس بوتھا کا مجسمہ ہٹانے کا مطالبہ کیا۔خیال رہے کہ امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر مینی پولِس میں 25 مئی 2020 کو سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں 45 سالہ سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ ہلاک ہوگیا تھا۔مینی پولس میں سفید فام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جس نے امریکا کے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں