نواب بگٹی جیسا دوسرا واقعہ ہوا تو بلوچستان کو سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا، زرداری

سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے پیپلز پارٹی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور اگر اکبر بگٹی جیسا کوئی دوسرا واقعہ ہو گیا تو حالات کو سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔سابق صدر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ اور جنرل سیکریٹری چوہدری منظور احمد کو ٹیلی فون کیا جس میں موجودہ ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔آصف علی زرداری نے پنجاب کی قیادت سے ملک کی تازہ ترین سیاسی صورتحال اور پارٹی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔آصف علی زرداری نے کہا کہ پنجاب میں جیالے متحد رہیں کیونکہ جلد اچھا وقت آنے والا ہے، ہمیں مقدمات کا کوئی خوف نہیں، پہلے بھی عدالتوں میں مقابلہ کیا اور اب بھی کریں گے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں حکومت نے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا تو خوفناک صورتحال جنم لے سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے 2008 کے عالمی بحران میں کسانوں اور مزدوروں کو سپورٹ کیا، کسانوں اور محنت کشوں کے لیے سپورٹ پروگرامز سے ملکی معشت واپس آئی۔آصف علی زرداری نے کہا کہ بد قسمتی سے وفاقی حکومت صوبوں کو مضبوط بنانے کے بجائے انہیں مزید کمزور کررہی ہے اور وفاق میں بیٹھے لوگ سیاسی ادراک نہیں رکھتے اور ہر بحران کو مزید گہرا کر دیتے ہیں۔سابق صدر مملکت نے پنجاب کے رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ٹڈی دل کی سال پہلے وارننگ دی تھی لیکن ان کو سمجھ ہی نہیں آئی تھی، ٹڈی دل سے کسان کو اور ملک کو جو نقصان ہوگا وہ کئی سالوں تک پورا نہیں ہوسکے گا۔انہوں نے کہا کہ دو سیلابوں کے باوجود ہم نے خوراک کی کمی نہیں ہونے دی لیکن آج خوراک کی شدید قلت کا خطرہ ہے، ہم گندم، چینی اور کپاس کو برآمد کر رہے تھے اور یہ درآمد کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم نے وفاق کو جوڑا اور این ایف سی ایوارڈ نے اس کو اورمضبوط کیا، حکمران نہ آئین، نہ کسی اصول اور نہ ہی کسی تہذیب کو مانتے ہیں بلکہ ہر چیز توڑ پھوڑ دینا چاہتے ہیں۔آصف زرداری کا کہنا تھا کہ میں نے بلوچستان سے معافی مانگ کر کوئی ذاتی جرم نہیں کیا تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لانا میری ذمہ داری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 2008 کے الیکشن میں بلوچستان کی تمام قوم پرست جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا اور ہماری کوششوں سے 2013 کے الیکشن میں بلوچستان کی تمام جماعتیں قومی دھارے میں واپس آئیں۔سابق صدر نے سینئر رہنماؤں سے گفتگو میں مزید کہا کہ آج اگر اختر مینگل سے بات کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود ہیں اور پیپلز پارٹی آج بھی بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے البتہ شرط یہ ہے کہ بلوچ نوجوان مسلح جدوجہد ترک کر کے سیاسی جدوجہد میں واپس آئیں۔انہوں نے کہا کہ ریاست کو بھی بلوچستان میں اب زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر اکبربگٹی جیسا کوئی دوسرا واقعہ ہوگیا تو حالات کو سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل نے مطالبات پورے نہ کرنے پر حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔اس کے بعد حکومت نے اختر مینگل سے رابطے کرتے ہوئے انہیں منانے کی متعدد کوششیں کیں لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی کو منانے میں ناکام رہی۔اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے بلوچستان نیشنل پارٹی سے رابطے تیز کر دیے تھے اور جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اختر مینگل سے رابطے کیے تھے اور دونوں کے درمیان اہم سیاسی امور پر گفتگو کی گئی تھی

اپنا تبصرہ بھیجیں