خوبصورت وادی راڑھ شم (کوہ سلیمان)

جمیل بزدار
کوہ سلیمان میرے لیے ہمیشہ مہر کا باعث بنا۔ اس کی حسین وادیوں میں کھو کر نہ جانے خود کو کتنی بار اس (وادی) کے پر اسراریت کے حوالے کر چکا ہوں۔ میرے وجود کا زرہ زرہ اس (وادی) کی پرستش کرتا ہے۔ کسی سادھو کی طرح بیٹھے اپنے وجود کو بار بار اس کے خوبصورت وادیوں میں کھو دیتا ہوں ۔ زندگی کا ہر لمحہ اس کی چٹانوں پر بیٹھ کر اس کی خوبصورت پہاڑوں پر چڑھ کر اور درختوں کے سائے میں سو کر گزارنا چاہتا ہوں ۔ ہائے ! وہ شوانک کتنا خوش قسمت ہوگا جو ہر صبح شام اس خوبصورت وادی سے جڑ کر نیچر کو گلے لگا تاہے۔ کاش ! کہ وقت کا پہیہ رک جائے کہ میں نے چند لمحے اور اس خوبصورت وادی میں گزارنے ہیں ، اس کے ہوا کی نمی ، یہاں کے چڑیوں کی چہچہاہٹ
اور بھیڑوں کے گلے میں لٹکے ہوئے گھنٹی کی آواز سننی ہے ۔
شام ڈھل چکی تھی اندھیرا اپنے جوبن پرتھی کہ جب ہم کوہ سلیمان کے پہاڑوں کے بیچ گزر رہے تھے میرے ہمراہ مسافر تو اپنی باتوں میں مشغول تھے ۔لیکن میں گرفتار ہوچکا تھا اس خوشبوسے جو اس خوبصورت دھرتی ماں سے آرہی تھی، ہم جیسے جیسے وادی کے بیچ پہنچتے جا رہے تھے تجسس اور پر اسراریت اتنی بڑھ رہی تھی ۔
بلا آخر ہمیں اپنے آخری اسٹاپ راڑھ شم اترنا پڑا ۔راڑھ شم تحصیل کنگری کا ایک قصبہ ہے ۔ یہ کنگری اور رڑکن کے بیچ میں واقع ہے ۔ یہاں کے مقامی آبادی میں زیادہ تر سید ، بزدار اور چند ایک جٹ (جاٹکی ) آباد ہیں ۔امن و امان کے لحاظ سے یہ علاقے اپنی مثال آپ ہیں تاہم رڑکن میں کبھی کبھار قبائلی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ کوہ سلیمان کی طرح یہاں کے لوگ بھی خوبصورت دل رکھنے والے لوگ ہیں ، انہوں نے نفرت ، لالچ اور مطلب پرستی کا نام سنا ہی نہیں یہ دوستی و مہر کےلیے مر مٹنے والے لوگ ہیں ۔ یہاں مہمانوں کو مرشد کا درجہ دیا جاتا ہے ان کی ایسی خاطر تواضح کی جاتی ہے کہ جس کی مثال شاید آپ کو دنیا میں کہیں نہیں ملے گا ۔ محبت کے گن گانے والے یہ لوگ عرصہ دراز سے بلوچی روایت کی پاسداری کرتے آرہے ہیں ۔
جہاں سرمایہ دارانہ نظام نے ہر جگہ علاقائی رسم و رواج کو نیست و نابود کیا وہیں پہاڑوں کے پیچ میں رہنے والے ان لوگوں نے اس ظالم ناگ کے زہر کو ایسا اینٹی ڈاٹ سے ٹریٹ کیا۔ کہ جو اس (زہر) کا اثر اب آنے والی نسلوں تک پڑنے نہیں دے گا۔
مون سون ریجن میں ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں بارشیں بہت ہوتی ہیں ۔ ہلکی بوندا باندی سے موسم خوشگوار رہتی ہے ہر طرف درخت دھل کر صاف ہو جاتے ہیں چاروں طرف سبزہ کی چادر میں لپٹے یہ پہاڑ جنت کا منظر پیش کرتے ہیں، شبنمی قطروں سے لبریز سرد ٹھنڈی ہوائیں چہرے سے ٹکرا کر جب گزرتی ہیں تو ایسے لگنے لگتا ہے جیسے کسی کےمحبوب کے ہاتھ کا لمس چہرے کو مس کر کے گزر رہی ہو جیسے کوئی مہر کرنے والا اپنا پن کا اظہار کر رہا ہو۔ ان پہاڑوں کے بیچوں بیچ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے اور چائے کی ہلکی چسکیاں لینے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔
کوہ سلیمان اپنی دامن میں کئی راز و قصے دفن کر چکا ہے شاعروں اور مقامی لوگوں نے یہاں ہونے والے جنگوں اور واقعات کو محفوظ تو رکھا لیکن ان میں کتنی سچائی ہے یہ کوئی نہیں جانتا ۔ مقامی لوگوں کتاب و قلم اور شعوری تعلیم سے دور ہونے کی وجہ سے اپنے لوک داستانوں ، جنگی حالات، اور مقامی قصے کہانیوں کو محفوظ نہ رکھ سکے یہی وجہ ہے کہ کتابوں میں ان علاقوں کے متعلق کم ہی معلومات ملتی ہیں ۔ لاوارث بلوچستان کے یہ خوبصورت علاقے دنیا کی نظر سے اوجھل رکھے گئے ۔ ان کی خوبصورتی کو دیکھنے کےلیے کم ہی آنکھیں محو سفر رہتی ہیں ۔ تاہم یہ علاقے سیاحوں کےلیے ہر سال خود کو سنوارتی ہیں لیکن افسوس ! کہ

آس میں بیٹھی شہزادی کی مانگ میں چاندی جھانک چکی اوراتنے دیر سے کیوں آتے ہیں آخر یہ شہزادے لوگ؟

تحریر کے آخر میں ان دوستوں کا دل سے شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے اس وادی کی سیرکرائی یا اس کے ہر احساس کو محسوس کرنے کا موقع دیا اور اپنا قیمتی وقت نکال کر اس سفر میں میرا ساتھ دیا ۔ ملک محمد اقبال بزدار، محمد ایاز بزدار، محمد صادق بزدار، تیمو بزدار، یوسف بزدار، اویس و مصطفیٰ بزدار، ملک صاحب جان بزدار، سلیم جان بزدار اور محمد جان بزدار۔
ملک محمد اقبال کے نام کے ساتھ ملک ضرور لگا ہوا ہے لیکن ان کی شخصیت میں کسی اینگل سے بھی ملکی نظر نہیں آتی انتہائی با اخلاق اور انسان دوست شخصیت کے مالک ہیں۔ محمد ایاز بزدار پیشے کے لحا ظ سے ایس ایس ٹی ٹیچر ہیں جو وہی مقامی اسکول میں پڑھاتے ہیں ان کا مقصد اپنے علاقے کے بچوں کے مستقبل کو سنوارنا ہے ، شریف النفس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ میرے ایک اچھے دوست بھی ہیں ۔ محمد صادق محنتی اور قابل نوجوان ہیں لسبیلہ یونیورسٹی سے ایم فل کر رہے ہیں علم دوست انسان ہیں ۔
بلوچ راج کے دوست سیاسی لحاظ سے خاصے ایکٹو نظر آتے ہیں زونل صدر تیمور بزدار ، زونل وائس جنرل سیکریٹری مصطفی ٰ بزدار اور زونل ڈپٹی جنرل سیکریٹری سلیم جان بزدار کی کوشش ہے کہ کسی طرح راڑھ شم کے یوتھ کو موبائلائز کیا جائے اور علم و دانش کا چراغ روشن کیا جاسکے ۔ محمد جان بزدار نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے ہمارے محفلوں کو چار چاند لگایا ، ان کے مزاح کا میں گرویدہ بن گیا۔ دوستوں کے ساتھ گزرے ہوئے ان لمحات کو میں کبھی نہیں بھول سکتا ، یہ زندگی کے حسین لمحات تھے کہ اتنے خوبصورت وادی میں اتنے اچھے لوگ ملے۔ کیا کریں کہ وقت تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا ، یہ انسان کو کہاں سے کہاں پہنچاتا ہے ، کاش کہ وقت تھم جاتا کہ میں چند پل اور ٹھہر سکتا ، بھلاوقت کےڈ کشنیری میں کانسٹنٹ لفظ ہوا ہی کب ہے ۔ سورج غرو ب ہو نے کو تھی کہ آج مجھے واپس ہونا تھا میں نے کوہ سلیمان کی پہاڑوں سے سورج کو غروب ہوتے اور اس کی زرد ی کو اندھیرے میں بدلتے دیکھا ۔ پہاڑوں پر موجود درخت جیسے ہاتھ ہلا کر الوداع کر رہے تھے۔ اس وادی کی خاموشی میں ایک اداسی تھی کسی مایوس شہزادی کی ، کسی بے بس مخلوق کی ! ۔۔۔ میرے آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے جب مجھے اپنے دیس کو الوداع کہہ کر گاڑی میں سوار ہو کر چار سو کلومیٹر دور آنا پڑا ۔ میں جب بھی سوچتا ہوں خود کو ان پہاڑوں کے بیچ پاتا ہوں

اپنا تبصرہ بھیجیں