پی ڈی ایم کے غبارے سے نکلتی ہوا ……

تحریر: راحت ملک
پی ڈی ایم نے وزیراعظم عمران خان پر الزامات کی چارج شیٹ جاری کی اور ان سے 31جنوری 2021ء تک مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کیا تھا 31جنوری گزر چکی ہے وزیراعظم مستعفی نہیں ہوئے چنانچہ کہا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم گیڈر بھبکیوں کا مجموعہ ہے حکومت کیلئے سنجیدہ خطرہ نہیں۔ حالانکہ یہ مسلمہ بات ہے ایک سیاسی مطالبے پر ہمارے ملک میں مسعفی ہونے کی نہیں دوسرا یہ کہ پی ڈی ایم ایسی قوت تو نہیں کہ ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد وہ حکومتی ایوانوں پر حملہ آور ہوکر حکومت کو نکال باہر کرتی ڈیڈ لائن دینے کا واضع مقصد یہ ہے کہ اس تاریخ کے پی ڈی ایم حکومت گرانے میں اخلاقی طور پر بھی مجاز ہوگی کہ اس نے قبل از وقت آبرومندانہ طور پر حکومت چھوڑ دینے کا موقع دیا تھا صاحب یہ سیاسی جدوجہد ہے یوں نہیں پیڈی ایم یکم فروری کو حکومت کا سرکٹ بریکر بند کرے اقتدار کا خاتمہ کر دیتی جیسا کہ دسمبر میں ہوا اور پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔۔اس حوالے سے اب کچھ ناقد احباب یہ بھی فرماتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے وغیرہ وغیرہ
بات یہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے اپنے مطالبے کے ساتھ یہ تو نہیں کہا تھا کہ اگر 31جنوری تک جناب عمران خان نے استعفیٰ نہ دیا تو ہم خود انہیں برطرف کر دیں گے ہاں استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں پی ڈی ایم نے سخت احتجاجی اقدامات کا عندیہ واشگاف طور پرضرور دیا تھا، دسمبر کی 27تاریخ کے بعد پی ڈی ایم کے اتحاد پر باہمی، داخلی اختلافات اور مفادات کے ٹکر آکے مشکوک سائے گہرے ہونے لگے تھے جب جناب بلاول بھٹو نے لانگ مارچ اور دھرنے کی مخالفت کرتے ہوئے ایک عوامی اجتماع میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت ختم کرنے کیلئے اپنی تجویز پیش کرتے ہوئے اسے تیر بہدف نسخہ بھی قرار دے دیا تھا اب پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس فروری کی چار تاریخ کو طلب کیا گیا ہے جس میں تحریک عدم اعتماد کی تجویز پر شرکاء غور کریں گے اگر جناب بلاول نے تحریک کی کامیابی کیلئے درکار مطلوبہ ووٹوں کے متعلق ٹھوس اعداد شواہد کے ساتھ سیاسی یقین دہانی پیش کی تو پی ڈی ایم کیلئے اس تجویز کو قبول کرنا ممکن ہوجائیگا بصورت دیگر جناب بلاول بھٹو کو اپنی تجویز یا موقف سے پیچھے ہٹنا پڑے گا-
غور طلب نکتہ یہ ہے کہ تحریک کی کامیابی کیلئے مطلوبہ ووٹ کہاں سے آنے کی امید نما یقین دہانی ہو سکتی ہے؟ مخلوط مرکزی حکومت میں ایک یا دو جو دس پندرہ ارکان قومی اسمبلی کی حامل ہوں اور حکومتی کارکردگی سے نالاں بھی۔ ان کے گلے شکوے اور مایوسی نے بھی انہیں قومی اسمبلی میں اپنا پارلیمانی کردار بدلنے پر مجبور کیا ہو اور انہوں نے جناب بلاول تک اپنی تبدیلیٍء فکر و عمل کی مصدقہ اطلاع بھجوائی ہو یا پھر یہ کہ خود پی ٹی آئی میں موجود انکے سابقی پارٹی ساتھی ایم این ایز کے کسی موثر گروپ نے جو حکومتی فیصلہ سازی میں موجود کوتاہیوں سے ناخوش ہو باہمی طے پر یہ طے کر لیا ہو کہ وہ اپنا فارورڈ بلاک بنا کر ان ہاوس تبدیلی لانے میں کردار ادا کرینگے۔ واضح رہے کہ حکومتی فیصلہ سازی کے عمل میں غیر منتخب مشیران و معاونین خصوصی اور ترجمانوں کی فوج جنہیں وزیراعظم کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے اور وہ منتخب ارکان سے زیادہ بارسوخ بھی ہیں وہ منتخب اراکین پارلیمان ان کی اس بالادستی اور "کام کردگی” سے سخت ناراض و نالاں ہیں تو گمان ممکن ہے انہوں نے اپنی راہیں جدا کرنے کا ادارہ کر لیا ہو؟ البتہ کھنڈت ان مذکورہ دونوں ممکنہ گروہوں کے ” آزادانہ خودمختار فیصلہ کرنے کی استعداد یا امکان کی موجودگی” کے سوال سے پیدا ہوتی ہے سیاسی حلقے بالعموم خیال ظاہر کرتے اور شاید درست فرماتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی کسی جماعت میں من حیث الجماعت یااس کے ارکان میں اتنی سکت ہے نہ حوصلہ کہ وہ مذکورہ نوعیت کے فیصلے اپنے طور پر کر سکیں البتہ اگر انہیں کارخانہ ٍحکمرانی سے اشارہ مل جائے تو پھر یہ کاغذی شیر بھی اصلی جنگلی شیر بن سکتے ہیں پی ڈی ایم اپنے مجوزہ سربراہی اجلاس میں جہاں دستیاب ہونے والے ووٹوں کی بابت جناب بلاول سے مفصل معلومات کا تقاضہ کرے گی تو لازمی طور پر وہ اس پہلو پر بھی سوال اور غور کرے گی کہ ” شاہی محل ” سے ملنے والے مذکورہ خیراتی ووٹ صرف حکومت گرانے کیلئے دستیاب ہوں گے یا و ہ اگلی حکومت کی ہیئت سازی میں مرکزی کردار بھی ہونگے؟ اور اپنے جثے سے زیادہ حصہ طلب کریں گے؟ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی ممکن بنانے کی ممکن سعی کریں گے کہ ممکنہ طور پر نئی حکومت جواب سیاسی مداخلت بند کرانے سے متعلق اپنے بیانہ عزائم سے عملا دستکش ہونے کا یقین بھی صاحبان ٍ اقتدار کو دلائیں؟؟ اس مباحثے یا اجلاس میں قرائں بتا رہے ہیں کہ
پی ڈی ایم کی قیادت عدم اعتماد کی مجوزہ تحریک کے نئے رفیقان اور ان کے پس پردہ کرداروں۔عوامل اور مقاصد کے مضمرات اثرات اور دیگر امور کو قطعی طور پر اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے۔ نواز لیگ کا موقف تو اس کی پارلیمانی پارٹی کے حالیہ اجلاس سے کم و بیش سامنے آ چکا ہے دیگر جماعتیں بھی مفاہمت و مصلحت پسندی کے مرض میں مبتلا ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں گو کہ مولانا فضل الرحمان کے گزشتہ روز کے بیان میں نرم خوئی بدرجہ اتم موجود تھی جسے احباب نے ” معاملہ بندی” سے تعبیر کیا ہے ممکن ہے معاملہ یونہی ہو لیکن اس کے برعکس کی صورتحال کا امکان بھی برقرار ہے۔ کیا خبر مولانا فضل الرحمان صاحب کا یہ بیان سفارتی آداب کا مظہر نکلے جو فریق مخالف کو معاملات بگاڑنے کے الزام. سے بچنے کی پیشبندی ہو کہ جناب ہم نے تو لچک کا اظہار کیا تھا مگر دوسرے فریق نے ہمارے رویے کو پذیرائی نہیں دی یہ بہت واضح ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد قومی اسمبلی میں اکثریت نہیں رکھتا وگرنہ وہ حکمران ہوتا۔ لہذا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا انحصار ان امدادی ووٹوں پر ہی ہو سکتا ہے جن کا سطور بالا میں ذکر اور ان کی نوعیت اور مابعداثرات بھی جزوی طور پر رقم کر دیئے ہیں۔ دریں حالات میں نہیں سمجھتا کہ سربراہی اجلاس میں جناب بلاول بھٹو دیگر جماعتوں کو اپنا ہمنوا بنا پائیں گے لہذا امکان یہی ہے کہ پی ڈی ایم ان ہاؤس تبدیلی کیلئے فوری طور پر آمادہ نہیں ہوگی۔
نظام کے تسلسل کی خواہش اور آئینی ذرائع سے تبدیلی لانے کے موقف میں دو چیزیں کردار ادا کر سکتی ہیں اول جناب عمران خان حالات کی ستم ظریفی دیکھتے ہوئے مستعفی ہو جائیں کابینہ تحلیل کر دی جائے اور قومی اسمبلی کو آزادانہ طور پر خودمختاری کے ساتھ نئی حکومت سازی کا موقع دے دیا جائے یا
دوم یہ کہ پی ٹی آئی سے کثیر تعداد میں ارکان بغاوت کریں اتحادی بھی ساتھ چھوڑ دیں اور یہ باغی گروپ پیپلز پارٹی کی شراکت داری سے نئی حکومت قائم کر لے یوں موجود ہائی برڈ نظام بھی چلتا رہے گا اور طاقتوروں کو لاحق سیاسی خطرات و خدشات بھی زائل ہو جائیں گے شاید پی ڈی ایم بھی ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہو جائے یا کم از کم پیپلز پارٹی اس سے علیحدگی اختیار کر کے سندھ کے بعد مرکز میں بھی حکمران بن جائے –
بحثٰ کو آگے بڑھانے سے قبل مناسب ہوگا کہ پی ڈی ایم کی ناکامی سے متعلق ابلاغی بیانیہ کے جواب کچھ معروضات پیش کروں کہ اس تحریک نے اب تک کیسی اور کتنی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں
میں وفائیں شمار کرتا ہوں
تم جفائیں ذرا تلاش کرو
یہ کہنا بہت سہل بھی ہے اور شاید لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے تسلیم بھی کر رہی ہو کہ پی ڈی ایم کی تحریک تاحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی اس تصور کو پروان چڑھانے والے لکھاری البتہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ اس تحریک کی کامیابی کو کس انداو و طور میں دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ انکی متضاد خیالی یہ ہے کہ وہ دوران تحریک، حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دینے اور سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے حکومتیں گرانے بدلنے کے سخت ناقد بھی تھے (آئینی مدت کے متعلق وہ کسی بھی مباحثہ میں آئین کی وہ شق پیش نہیں کر پاتے تھے جس میں ایک بار قائم ہو جانے والی حکومت کی پانچ سال تک مدت متعین کی گئی ہو)
کسی بھی سیاسی تحریک کی اپنی کیمسٹری ہوتی ہے اس میں اتار چڑھ آآتے ہیں تحریکوں میں عوامی جوش و جذبہ بھرنے اور کارکنوں کے حوصلے بلند رکھنے کیلئے جلد کامیابی کی نوید کے دعوے بھی کئے جاتے ہیں تحریک کے دوران
احتجاج کے اثرات نیز حکومت کی مزاحمتی قوت و ہمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکمت عملی کا مسلسل جائزہ لیا جاتا ہے۔ایک قدم آگھے بڑھنے کے لئے کبھی کبھار ایک قدم پیچھے بھی ہٹنا حکمت عملی کی عملیت پسندی میں شمار ہوتا ہے۔بنیادی سوال جس پر موجودہ تحریک منظم ہوئی سیاست میں مسلسل غیر سیاسی مداخلت کا سلسلہ بند کرانے کے لئے جمہوری جدوجہد کرنا تھا۔اسی مداخلت کے نتیجے میں 25جولائی2018 کے انتخابات چوری ہوئے تھے اور مال مسروقہ پی ٹی آئی سے برآمد ہوا تھا۔چوری شدہ مینڈیٹ کو رد کرتے ہوئے عوامی رائے کو تبدیل کرنے والے کرداروں کی سیاسی گوشمالی لازمی ٹھہرائی گئی تھی۔حکومت کو مسلط زد کہنے اور مسلط کرنے والوں پر تنقید ان کے پس پردہ کردار کا علی الاعلان اظہار اس مقصد ومطمع نظر کو عوامی سطح پر آگے بڑھانا تھا تاکہ مداخلت کار اپنے آئینی فرائض منصبی تک خود کو محدود رکھنے پر مجبور ہوں یا مائل وقائل ہوجائیں یوں پارلیمان کی بازیابی عمل میں آئے پارلیمنٹ آزادانہ طور پر اپنے تمام فائض سرانجام دے سکے۔تحریک کامذکورہ مقصد بہت بنیادی مگر کٹھن تھا اور اب بھی ہے۔ (جاری)

اپنا تبصرہ بھیجیں