پراپرٹی لیکس کے مقاصد؟

تحریر: انور ساجدی
دبئی پراپرٹی لیکس کا ہدف کون ہے؟ یہ غوروفکر کی بات ہے بظاہر جو اسکینڈل کھڑا کیا گیا ہے وہ پرانا ہے اور جن پاکستانیوں کی جائیدادیں ظاہر کی گئی ہیں وہ دس سے20سال پرانی ہیں اس کے باوجود ایک سوال کھڑا ہوگیا ہے اور سینکڑوں لوگوں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ جب2016 کو پانامہ اسکینڈل سامنے آیا تھا اس کا واحد ہدف میاں نوازشریف تھے نہ صرف انہیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ قید و جرمانہ اور نااہلی کی سزا بھی بھگتنا پڑی حالانکہ ان پر کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا بلکہ اقامہ رکھنے پر انہیں مجرم گردانا گیا۔جب صحافیوں کے انٹرنیشنل کنسورشیم نے پانامہ اسکینڈل کو سامنے لایا تو اس میں چار سو سے زائد پاکستانیوں کے نام تھے لیکن ایک کے سوا کسی کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق عرضی لے کر گئے تھے انہوں نے کبھی کسی کے خلاف زور نہیں دیا بلکہ چیف جسٹس کی ہدایت پر انہوں نے درخواست میں ترمیم کر ڈالی اور صرف نوازشریف کو ہدف بنایا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نوازشریف کا شمار ان چند لوگوں میں ہے جنہوں نے ناجائز ذرائع سے بے شمار دولت اکٹھی کر لی لیکن پراسیکیوٹر کی ناکامی کی وجہ سے ان پر الزامات ثابت نہ ہو سکے حالانکہ حدیبیہ پیپرز مل یا التوفیق کیس ان پر سو فیصد ثابت تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں بری کر دیا ایک اور کیس ہائیڈ پارک ون کا تھا جسے بحریہ ٹاﺅن کے ملک ر یاض نے زائد قیمت دے کر خریدلیا۔یہ جو190ملین پاﺅنڈ کی رقم ہے اس کا نوازشریف کے ہائیڈ پارک ون فلیٹ سے گہرا تعلق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا نظام انصاف کمزور ہونے کی وجہ سے تمام الزامات خاکستر ہوگئے جبکہ نوازشریف کو سزا دینے کے لئے دبئی کے اقامے کا سہارا لینا پڑا حالانکہ ہزاروں پاکستانیوں نے دبئی کا اقامہ حاصل کر رکھا ہے اور وہ اطمینان کی زندگی گزار رہے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ پانامہ اسکینڈل جو صحافی سامنے لائے تھے دبئی پراپرٹی لیکس بھی انہی کا کارنامہ ہے۔عمر چیمہ صاحب۔ موصوف نے نہ پہلے بتایا کہ اس کی اسٹوری کے کیا مقاصد تھے اور نہ ہی اب بتائیں گے کہ پراپرٹی لیکس کے کیا مقاصد ہیں۔لیکس میں میڈیا مالکان کو کلین چٹ دی گئی ہے صرف اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال اور چینل24 کے مالک محسن رضا نقوی کا نام اسکینڈل میں شامل کیا گیا ہے جبکہ متعدد میڈیا مالکان نے دبئی اور دیگر مقامات پر جائیدادیں خریدی ہیں۔پراپرٹی اسکینڈل میں ایک کلین چٹ تحریک انصاف کو دی گئی ہے اس کے صرف ایک لیڈر شیر افضل مروت کا نام شامل ہے جو دبئی میں جائیداد کے مالک ہیں باقی جو فہرست ہے وہ پرانی ہے البتہ جاوید قمر باجوہ کا نام نیا ہے جنہوں نے ایک جائیداد خرید کر اپنے بچوں کو گفٹ کر دی کچھ لوپروفائل ریٹائرڈ فوجی افسران کے نام بھی سامنے آئے ہیں جبکہ ملک ریاض کے سوا تمام کاروباری شخصیات یا ارب پتی سیٹھ صاحبان کا نام فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔شریف خاندان کو بھی بخش دیا گیا ہے صرف حسین نواز کے ایک کمرہ کے فلیٹ کا ذکر ہے حیرت کی بات ہے کہ نوازشریف کے سمدھی اسحاق ڈار اور ان کے بچوں کی جائیدادوں کی تفصیل نہیں دی گئی ہے۔زرداری کی جائیدادوں کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے لیکن یہ پرانی جائیدادیں ہیں جو بے نظیر کا ورثہ تھیں۔جو اس کے بچوں کو منتقل ہوگئی ہیں لیکن زرداری چونکہ صدر ہیں اس لئے ان کا نام زیادہ اچھالاجائے گا۔سب سے برے پھنسے ہیں سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن ان کی جائیدادوں کی مالیت اربوں درہم میں ہے چنانچہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ شرجیل میمن نے کن ذرائع سے اتنی زیادہ دولت اکٹھی کرلی۔جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو6شخصیات کا نام شامل ہے۔ ڈان نے صرف دو نام سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اور میر عامر مگسی شائع کئے ہیں۔حالانکہ بلوچستان کے کئی درجن لوگوں نے یو اے ای میں جائیدادیں خریدی ہیں۔جوں جوں وقت گزرے گا یہ واضح ہوگا کہ دبئی پراپرٹی لیکس کے کیا مقاصد ہیں۔پانامہ لیکس سے تو نوازشریف کی وزارت عظمیٰ ختم ہوئی تھی اس بار کیا تبدیلی آئے گی اس کا انتظار کرنا پڑے گا۔کئی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اسکینڈل صرف تحریک انصاف کا کام آئے گا بعض کی رائے ہے کہ اسکینڈل سامنے لانے میں تحریک کا ہاتھ ہے۔جن سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ عمران خان پر کرپشن کے جو الزامات ہیں وہ بہت معمولی ہیں جبکہ دیگر اشرافیہ سیاسی شخصیات اور کاروباری ہستیاں ان سے کہیں زیادہ کرپشن میں ملوث ہیں چنانچہ اس سے عمران خان کی اخلاقی حمایت میں اضافہ ہوگا اور اسے پروپیگنڈے کے لئے خوب مرچ مصالحہ ہاتھ لگے گا۔اس کا سوشل میڈیا آسمان سر پر اٹھائے گا۔اسکینڈل کا ایک سنجیدہ پہلو یہ ہے کہ جن رقومات سے جائیدادیں خریدی گئی ہیں وہ بینکوں کے ذریعے منتقل ہوئیں یا ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر گئیں۔صدر زرداری کے دست راست عبدالغنی مجید خاندان کا نام سامنے آیا ہے تو ضروراس میں منی لانڈرنگ پوشیدہ ہوگی۔پراپرٹی لیکس اگرچہ بہت بڑا طوفان برپا کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا لیکن اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کو چلانے والی سیاسی کاروباری اور مقتدر شخصیات نے کس طرح اپنی ریاست کو لوٹا اور یہاں کی دولت باہر منتقل کر دی جس کی وجہ سے نوبت ریاست کے دیوالیہ ہونے تک پہنچ گئی۔بدقسمتی سے جن لوگوں نے ریاست کی قسمت سے کھیلا وہی لوگ آج بھی اس ریاست کی قسمت اور سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔امکانی طور پر کرپشن لوٹ مار اور منی لانڈرنگ کے ذریعے دولت کی بیرون ممالک منتقلی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نام نہاد اشرافیہ کو یقین ہوچکا ہے کہ اس ریاست کی سلامتی اور وحدت خطرے میں ہے اس لئے وہ تیزی کے ساتھ اپنی دھن دولت باہر منتقل کر رہے ہیں۔بدقسمتی سے انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایسی سیاسی جماعتوں کا وجود باقی نہیں رہا جو اس بدمعاشی اور بے انتہا کرپشن کے خلاف کوئی عوامی تحریک منظم کر سکیں۔مین اسٹریم سیاسی جماعتیں خود گردن تک ملوث ہیں اور مقتدرہ نے انہیں مزید وقت کے لئے مسلط کر دیا ہے۔چنانچہ تبدیلی اور بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔بوجوہ عوام کی طاقت اور وحدت توڑ دی گئی ہے۔ٹریڈ یونینز کا وجود مٹ چکا ہے۔طلباءتنظیمیں برسوں کی پابندی کے بعد غیر فعال ہیں اور المیہ یہ ہے کہ جو اپوزیشن ہے یعنی پی ٹی آئی اگرچہ نوجوانوں کی اکثریت اس کے ساتھ ہے لیکن ہے وہ پرلے درجے کی رجعت پسند اور مزدور دشمن جماعت۔جس طرح ق لیگ اور پیپلز پارٹی اشرافیہ کی نمائندہ ہیں اسی طرح عمران خان اور ان کی جماعت بھی بالادست طبقات کی نمائندگی کر رہے ہیں۔تینوں بڑی جماعتیں اور ان کے سرپرست اعلیٰ کسی بھی تبدیلی سے خوفزدہ ہیں اور وہ اسٹیٹس کوہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتی ہیں کیونکہ عوامی ابھار کے بعد جو تبدیلی آئے گی یہ لوگ وہ تبدیلی نہیں چاہتے۔تحریک انصاف کے ساتھ دو اور اہم جماعتیں جے یو آئی ایف اور جماعت اسلامی بھی اشرافیہ کی ذیلی شاخیں ہیں انہوں نے آج تک ناانصافی ظلم کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف عوام کو منظم نہیں کیا۔ان کی تگ و دو زیادہ نشستوں اور حکومت میں زیادہ نمائندگی کے حصول تک محدود ہے۔یہ جو ملک کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔اس کی ذمہ دار مقتدرہ اور اس کی گماشتہ سیاسی قوتیں ہیں۔سب کا اتفاق ہے کہ ریاست کو فلاحی کے بجائے سیکورٹی ریاست کے طور پر چلایا جائے اور عوام کو خطرات سے ڈرا کر خوشحالی اور امن سے دور رکھا جائے یعنی اس ملک میں عوام کی حیثیت غلاموں جیسی ہے انہیں حکمران رعایا سمجھ کر بیگار کیمپوں کے مزدوروں کی طرح مفت مشقت لے رہے ہیں۔حکمرانوں کا سارا زور اس پرہے کہ عوام سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کئے جائیں تاکہ اشرافیہ عیش و آرام کی زندگی گزارے۔فرعون نے جب رعایا کو غلام بنا کر مفت اہرام تعمیر کروائے تو بالآخر اس کے گھر میں حضرت موسیٰ پیدا ہوئے اور انہوں نے عوام کی آزادی دلائی۔پاکستان میں ایسے حالات نہیں ہیں یہاں انقلاب برپا کرنے کے لئے بنیادی چیزیں ابھی تک ناپید ہیں۔غالباًاشرافیہ نے فیصلہ کر ر کھا ہے کہ وہ ریاست کو جتنا لوٹ سکتے ہیں لوٹ لیں اس کے بعد تو اس کا وجود ہی باقی نہیں رہے گا۔اس لئے انہوں نے پانچ براعظموں میں اپنا مال و متاع جمع کرلیا ہے کہ ان کی آئندہ نسلیں بھی کھائیں تو ختم نہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں