تاریکی ہی تاریکی
تحریر: انور ساجدی
کیا جو پاکستانی کشمیر میں ہو رہا ہے وہ ایک ٹریلر ہے اگر حالات ایسے ر ہے تو پورے پاکستان میں بھی اسی طرح کا پرتشدد احتجاج ہوگا؟ یہ حکمرانوں کی سوچنے کی بات ہے۔انہیں ادراک کرنا چاہیے کہ بلوچستان میں حالات پہلے سے خراب ہیں۔پختونخواہ میں بدامنی اور بے چینی عروج پر ہے۔چند ماہ قبل گلگت بلتستان میں بھی بھرپور مظاہرے ہوئے تھے۔کشمیر میں احتجاج ایسے وقت میں شروع ہوا جب بھارتی کشمیر اور دیگر علاقوں میں عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ان مظاہروں سے کیا پیغام سرحد پار گیا۔پاکستانی کشمیر کے مظاہروں میں پہلی بار متحدہ کشمیر کے نعرے لگے اور کوہالہ پل پر لوگوں نے پاکستانی پرچم اتار کر کشمیر کا جھنڈا نصب کر دیا۔آزاد کشمیر ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جس کی آبادی بھی کم ہے۔منگلا ڈیم یہاں پر ہے جو تربیلہ کے بعد دوسرا بڑا ڈیم ہے۔یہاں جو بجلی پیدا ہو رہی ہے اس کی آمدنی پر ریاست کا حق ہے لیکن اسلام آباد نے کافی عرصہ سے پیسے روک رکھے ہیں جب معاملہ سر سے اونچا ہوگیا تو بجلی کی آمدنی کی مد میں وفاقی حکومت نے جلد بازی میں 23 ارب روپے جاری کر دئیے جبکہ واجبات کہیں زیادہ ہیں۔اس علاقہ میں روزگار کے مواقع محدود ہیں۔آبادی کا بڑا حصہ بیرون ملک مقیم ہے۔ پاکستان کے تمام شہروں میں جو ریستوران ہیں ہوٹل ہیں وہاں پر کشمیری نوجوان محنت مزدوری کما کر روزگار حاصل کر رہے ہیں۔پوری ریاست شدید پسماندگی کی شکار ہے۔بجلی یہاں سے پیدا ہوتی ہے لیکن لوڈشیڈنگغضب کی ہے۔بجلی کے ریٹ باقی ملک کی طرح بہت زیادہ ہیں۔ریاست میں اس وقت جو حکومت قائم ہے وہ مصنوعی اور ہائی برڈ ہے جس کی کوئی نمائندہ حیثیت نہیں ہے۔ اتنی چھوٹی ریاست کی بہت بڑی کابینہ ہے۔ وزراءاور مشیروں کی فوج ظفر موج ہے۔یقینی طور پر کرپشن بھی باقی ملک کی طرح ہوگی۔کہنے کو یہ ایک آزاد ریاست ہے اس کی اپنی اسمبلی،سپریم کورٹ اور ادارے ہیں لیکن عملی طور پر یہ حکومت پاکستان کے ایک جوائنٹ سیکریٹری کے ماتحت ہے۔برسوں سے راولپنڈی میں واقع کشمیر سیکریٹریٹ سے ریاست کو چلایا جا رہا ہے۔76 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن پسماندگی بدستور قائم ہے۔رابطہ سڑکیں برائے نام اور مواصلات کا نظام بہت پسماندہ ہے۔تمام سپلائی یعنی اشیاءضروریہ راولپنڈی سے جاتی ہیں جو ریاست کے عوام کو مہنگے داموں ملتی ہیں۔یہاں پر موسمی تفاوت کی وجہ سے زرعی فصلیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔اس لئے آٹا ایک بڑا مسئلہ ہے۔اگر یہ مہنگا ملے تو لوگ فاقوں کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ ایل او سی کے اس پار جہاں طویل عرصہ سے آزادی کی جنگ جاری ہے تیزی کے ساتھ ترقی ہورہی ہے۔سری نگر کو دہلی سے ملانے کے لئے ریلوے لائن مکمل ہے۔ہوائی سروس بھی مستعد ہے۔جب ٹرین چلنا شروع ہو جائے گی تو سری نگر کے تازہ پھل،سبزیاں اور مہکتے ہوئے زعفران بہت کم وقت میں بھارتی منڈیوں میں پہنچ جایا کریں گے۔عرصہ ہوا کشمیر کی جنگ کمزور پڑگئی ہے کیونکہ پاکستان کے حالات سے یہ لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔پہلے انہیں اخلاقی مدد مل جاتی تھی لیکن جب سے مودی نے انڈین آئین کا آرٹیکل370 ختم کر دیا ہے کشمیریوں کی امیدیں دم توڑتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہو جانے کے بعد یہ ریاست بھارت میں عملاً ضم ہوگئی ہے۔ادھر پاکستانی لیڈرشپ زبانی کلامی بیانات کے علاوہ کچھ نہ کرسکی۔یہاں پر واحد کارنامہ یہ دیکھا گیا کہ اسلام آباد کی ایک شاہراہ کا نام کشمیرپر تھا اسے بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دیا گیا۔اس اقدام سے یہ سمجھ لیا گیا کہ سری نگر پاکستان کا حصہ بن گیا ہے۔دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے۔کافی وقت گزر گیا ہے پاکستانی حکمرانوں نے اپنے کشمیر کے ساتھ کوئی اچھا نہیں کیا۔کشمیر کی لوکل جماعتوں کو ختم کر دیا گیا اور سیاسی دراندازی کے ذریعے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو زبردستی الیکشن جتوا کر جعلی حکومتیں بنائی گئیں۔حالانکہ اگر وہ آزاد ریاست ہے تو پاکستانی سیاسی جماعتوں کا وہاں کیا کام؟۔کشمیر میں بدترین مداخلت کا سلسلہ ایوب خان نے شروع کیا تھا اور بھٹو نے اسے بام عروج پر پہنچایا تھا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی قائم کر کے عملاً ثابت کیا تھا کہ یہ پاکستان کا زیرنگین علاقہ ہے۔اس کے بعد سے کبھی مسلم لیگ اور کبھی پیپلزپارٹی کا کھیل جاری ہے۔حالیہ احتجاج سے لگتا ہے کہ کشمیر کے عوام عاجز آ گئے ہیں اور وہ احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں۔حالیہ مظاہروں میں ریاست نے طاقت کا مظاہرہ کیا ہے جو کہ اچھی روایت نہیں ہے کیونکہ کشمیر کی نازک پوزیشن ہے۔آئینی طورپر یہ پاکستان میں شامل علاقہ نہیں ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہاں کے عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔اگر لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف حکومتوں نے اپنی اصلاح نہیں کی تو کشمیر کے عوام خود مختاری کی تحریک شروع کرسکتے ہیں۔ریفرنڈم ہو نہ ہو عوام کی اکثریت جو چاہے وہی ریفرنڈم ہوتا ہے۔مجبوری یہ ہے کہ اگر کشمیری عوام خودمختاری کا راستہ اختیار کریں تو انہیں غدار بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ اصولی طور پر دونوں ریاستوں کا حصہ نہیں ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ اگر کشمیر اور پختونخوا میں پیدا ہونے والی بجلی کے واجبات کو وفاقی حکومت اپنے اوپر قرض سمجھتی ہے تو بلوچستان کی گیس کے واجبات کو کیوں اس کا حق نہیں سمجھا جاتا۔سوئی میں گیس1952 میں دریافت ہوئی تھی اس وقت سے اب تک وفاق نے کوئی حساب کوئی کھاتہ نہیں رکھا ہے جیسے یہ کسی مفتوحہ علاقے کا مال غنیمت ہو۔صحیح اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن سرسری جائزے کے مطابق یہ رقم کھربوں بنتی ہے۔ آج تک وفاق کو ترس نہیں آیا کہ یہ صوبہ کس قدر زبوں حالی،بھوک و افلاس کا شکار ہے۔وفاق نے کوئی ایسا ترقیاتی کام نہیں کیا جس سے بلوچستان کی پسماندگی دور ہو۔جو بھی غیر ملکی پاکستان آتا ہے وہ بلوچستان کی زمین ،اس کا ساحل اور وسائل مانگتا ہے۔بلوچستان ہی ہے جس نے اپنے سمندر کے ذریعے پاکستان کو موجودہ تزویراتی اہمیت بخشی ہے لیکن وفاق نے آج تک اس کا احساس نہیں کیا ہے۔پہلے بلوچستان کے لوگ احتجاج کر رہے تھے اب کشمیر اور گلگت بلتستان بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ بنیادی طور پر گلگت بلتستان اور کشمیر ایک علاقہ ہے اس کی عالمی حیثیت بھی ایک جیسی ہے ۔پاکستان میں سیاسی عدم استحکام آئین کی پامالی جعلی انتخابات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔حکمران اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے اور آئندہ کیا ہونے جا رہا ہے۔مودی تیسری بار حکومت میں آکر ضرور کوئی منفی منصوبہ بنائیں گے اور ایل او سی کی اس طرف کوئی آہن و آتش بھڑکائیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس اس کا کیا توڑ ہوگا وہ تو خود کنفیوژن کا شکار ہیں کہ امریکہ کا ساتھ دیا جائے یا چین کا۔امریکہ ایسا کمبل ہے جو جان نہیں چھوڑتا۔اس نے گزشتہ روز داعش ٹی ٹی پی اور طالبان کے تدارک کے لئے ایک پلان پیش کیا اور پاکستان کو اشتراک اور تعاون کی دعوت دی ہے۔یہ ایسا پلان ہے کہ یہ علاقے میں ایک نئی جنگ کو جنم دے گا۔ساتھ ہی امریکہ نے پہلی بار انڈیا کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے چاہ بہار پورٹ کے مسئلہ پر ایران سے اشتراک جاری رکھا تو اس پر معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔اس دھمکی کے باوجود انڈیا نے چاہ بہار پورٹ کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ معاشی اعتبار سے چونکہ انڈیا بہت مضبوط ہے اس لئے وہ امریکی پابندیوں کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا۔انڈیا چاہ بہار پورٹ کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیا کو بلوچ سمندر تک ملانا چاہتا ہے کیونکہ پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں جس کی وجہ سے ٹرانزٹ ٹریڈ رک گیا ہے۔چاہ بہار پورٹ گوادر کے قریب واقع ہے جو کہ ابھی تک ایک کمرشل پورٹ میں تبدیل نہ ہوسکا اور شاید کافی عرصہ تک نہ ہو۔عالمی صورتحال کے تناظر میں چین نہ جانے کیا سوچ رہا ہے اور کن شکوک کا شکار ہے یہ کچھ عرصہ بعد ہی پتہ چلے گا ۔اس کی سردمہری کا یہ عالم ہے کہ میاں نوازشریف ایک وفد کے ساتھ چین گئے لیکن چینی حکومت نے اس وفد کو کوئی اہمیت نہیں دی۔شہبازشریف بہت ہاتھ پیر مار رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ چین عارضی قرضوں کے رول اوور کے علاوہ اور کوئی رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہے۔سونے پر سہاگہ یہ کہ ساری دنیا میں یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ موجودہ حکومت کو جعلی انتخابی نتائج کی وجہ سے نمائندہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا عدم استحکام طویل عرصہ تک جاری رہے گا اگر موجودہ حکومت چلی بھی گئی تو متبادل حکومت پی ٹی آئی کی ہوگی لیکن وہ بھی پونے چار سال کوئی کارکردگی نہ دکھا سکی اور بیڈ گورننس کا شکار رہی۔دیکھا جائے تو اس وقت جو حکومت اور اپوزیشن ہے یہ نااہل اور ادراک سے عاری لوگوں پر مشتمل ہے۔اس لئے معاشی بہتری اور سیاسی اعتبار سے بہتر نمائندگی کے آثار دور دور تک نہیں ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع اور ن لیگ کے لیڈر خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں ایک اور”دلبرانہ“ خطاب کیا ہے۔انہوں نے2002 میں جنرل مشرف کی قائم اسمبلی میں ایک معرکتہ الآرا خطاب کیا تھا۔ایسا خطاب جو آج تک کسی نے نہیں کیا اور نہ ہی کر سکے گا۔پیر کو جب فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان نے ڈھائی گھنٹہ تک حکومت کو لتاڑا تو اس کا جواب دینے کے لئے خواجہ صاحب آئے۔انہوں نے آتے ہی کہا کہ پہلا آئین ایوب خان نے توڑا،مارشل لاءلگایا تھا اس لئے ایوب خان کی قبر سے اس کی لاش نکال کر پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔اس جملہ کے بعد ایوب خان کو آئیڈیل ماننے والی تحریک انصاف نے آسمان سر پراٹھا لیا اور خواجہ آصف کو تقریر کرنے نہیں دی۔ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ جن آمروں نے آئین توڑے ان پر دفعہ6 کے تحت کارروائی کی جائے۔اگرچہ ایوب خان کے بارے میں خواجہ آصف کی بات درست تھی لیکن دادے کے جرم پر اس کا پوتا کیوں مجرم ٹھہرے حالانکہ عمر ایوب اور ان کے باپ گوہر ایوب نے ہر کنگز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔یہ پہلا موقع ہے کہ عمر ایوب اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔جہاں تک خواجہ آصف کا تعلق ہے تو ان کے والد محترم خواجہ محمد صفدر ایوب خان کی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے تاہم جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءمیں شامل ہو کر ان کی مجلس شوریٰ کے چیئرمین بن گئے۔خود خواجہ آصف کے بھی جنرل باجوہ اور دیگر سربراہان سے خصوصی تعلقات رہے ہیں۔انہوں نے یہ کہہ کر بات صاف کردی کہ ضیاءالحق کا ساتھ دینے پر ہم کئی بار معافی مانگ چکے ہیں۔اگرچہ خواجہ آصف کا قومی اسمبلی میں خطاب دلیرانہ ہے لیکن نہ صرف حکومت کاحصہ ہیں بلکہ وزارت دفاع کا قلمدان بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔انہیں اپنے ڈومیسائل کی فضیلت حاصل ہے ورنہ ایسی تقاریر کے بعد ان کا شمار بھی مسنگ پرسنز میں ہوتا۔پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ نے جنرل پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا دے کر ایک نئی ریت ڈالی جس کی بازگشت ہمیشہ سنائی دے گی۔