ہمارے سیاسی ادارے ہماری عظیم درسگاہ ہیں

تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ

محکوم قوم کے نوجوان اپنے استحصال زدہ سرزمین کی باسیوں کے امید کی کرنیں ہوتی ہیں، جس پر پورے محکوم قوم کے چرواہے، مزدور، کسان، عمر رسیدہ اور استحصال زدہ لوگ کی امیدیں وابستہ ہیں کہ کل کے دن قوم کے نوجوان علم وشعور سے لیس ہو کر اپنی سرزمین اور قوم کو ظلم و جبر کی تاریکی سے نکال کر ایک روشن مستقبل دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

بحیثیت ایک محکوم کے نوجوان، ہر ایک بلوچ نوجوان کو سیاست، نفسیات، معاشیات، فلسفہ، تاریخ، بین الاقوامی تعلقات عامہ، صحافت اور مختلف شعبوں میں علم و شعور سے آراستہ ہوکر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خود کو دیگر ترقی یافتہ اقوم کے برابر لانا ہوگا۔ آج کے دور میں دنیا کے اقوام طاقت کے پلڑے سے منحصر ہیں، جن اقوام کے نوجوان سیاست، نفسیات، فلسفہ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں عبور حاصل کرچکے ہیں وہ ترقی کے منازل کو طے کرچکے ہیں۔ کیونکہ بحیثیت قوم کے نوجوان اپنی قومی تاریخ، شناخت، زمین، وسائل کو تحفظ دینے کیلئے ہمیں ہر شعبے میں ماہرین کی ضرورت ہے، اگر ہمارے پاس ان تمام شعبوں میں علم و شعور سے آراستہ ماہر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہو تو تب ہم بین الاقوامی سطح پر بحیثیت ایک قوم خود کو منوانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ دنیا تب آپ کو ایک قوم اور ریاست تسلیم کرتی ہے جب آپکے پاس ان تمام شعبوں میں کای ماہرین کی کمی نہ ہو۔

یہاں میں اپنے محکوم قوم کے نوجوانوں کو یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کبھی حکمران طبقے کے نوجوانوں کے ساتھ خود کا موازنہ نہ کریں کیونکہ وہ آزاد منش ہوتے ہیں انکے سب کچھ برابر ہوتے ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں بحیثیت ایک مظلوم قوم کے نوجوان، ہم پر بھاری زمہ داریاں عائد ہیں، ہمیں اپنی مظلوم اور محکوم قوم کو ان تاریکیوں سے نکالنے کیلئے شبانہ روز جدوجہد کرنا ہوگا، تب ہم اپنی شناخت، تاریخ، زمین اور وجود کی حفاظت کر سکتے ہیں۔

ہمیں اپنے نوجوانوں کو علم و شعور سے آراستہ کرنے کیلئے مختلف موضوعات پر تفصیلاََ بحث و مباحثہ کرنا ہوگا تاکہ آنے والے دنوں میں ہمارے قوم کے نوجوان مختلف شعبہ جات میں بھرپور صلاحیت کے ساتھ اپنا لوہا منوا سکیں۔ علم وشعور کے بغیر ہم ترقی کے منازل کو کبھی طے نہیں کر سکتے۔
ہمیں انفرادی سوچ سے نکل اجتماعی سوچ کو فروغ دینا ہوگا، اگر قوم کے نوجوان چاہے وہ کسی بھی شعبے سے وابستہ ہیں، کمپیوٹر سائنس، میڈیکل سائنس، سوشل سائنس اور دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں، اگر ہر ایک اپنے اپنے شعبے میں اجتماعی اور قومی مفادات کیلئے مثبت سوچ رکھے تو وہ بھی قومی خدمات کر رہا ہے، وہ بھی اپنے قومی جدوجہد میں برابر کے شریک ہے، ہمیں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔

ایک نوآبادیاتی تعلیمی نظام کے اندر نوجوانوں کو زہنی مفلوج بنانے کیلئے باقاعدگی کے ساتھ ایک مخصوص کورس تیار کر دیا جاتا ہے، اور انہیں اس مخصوص کورس کو رٹنے کیلئے زور دیکر انکو دماغی طور پر مفلوج کردیا جاتا پے، تاکہ وہ ایک مینڈک کی طرح کنویں کو اپنی زندگی سمجھ لیں۔ وہ خودغرض بن کر اپنی انفرادی زندگی کے بارے میں سوچ لیں، تاکہ وہ اپنی زبان، زمین اور شناخت سے بیگانگی اختیار کرے۔

لیکن بحیثیت محکوم قوم کے نوجوان ہمیں طلباءسیاسی تنظیموں کو ایک درسگاہ کی حیثیت دینی چاہئے کیونکہ یہ واحد پلیٹ فارم ہوتے ہیں جس کے زریعے ہم اپنی زاتی زندگی سے نکل کر اجتماعی زندگی اور قومی مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ دنیا کے وہ واحد ادارے ہوتے ہیں جو ایک انسان کو ایک لیڈر بناتے ہیں۔ جس کے پلیٹ فارم سے فارغ التحصیل سیاسی نوجوان اپنے زمین اور قوم کی رہنمائی کریں گے۔ وہ دنیا کے تمام غیرموضوع حالات کے اتار اور چڑھاو¿ سے واقف ہوتے ہیں، انہیں راستوں میں بچائے گئے کانٹے روک نہیں سکتے۔ تو پھر کیوں نہ ہم اپنے ان قومی اثاثوں کو مضبوط و مستحکم نہ کریں گے۔ ہمیں اپنے ان عظیم درسگاہوں کے ساتھ جڑ کر اپنی سوچ کو انفرادی سے سوچ سے بدل کر اجتماعی سوچ کی طرف گامزن کرنا ہوگا۔ یہ دنیا وسیع ہے، دنیا کی تاریخ کو سمجھنے اور دیگر اقوام کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں محض ایک مخصوص کورس کو رٹنے کے بدلے قومی طلباءتنظیموں کے اندر شامل ہو کر مختلف موضاعات پر بحث و مباحثہ کرنا ہوگا تب جاکر ہم دنیا کے اندر بحیثیت ایک زندہ قوم خود کو منا سکتے ہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ ایک قومی طلبا تنظیم کی حیثیت سے تعلیمی اداروں کے اندر قوم کے نوجوانوں کو سیاسی علم وشعور اور تربیت کیلئے جدو جہد کر رہا ہے تاکہ کل کے دن تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان ایک مکمل شعوریافتہ زہنیت کے ساتھ اپنے محکوم قوم کیلئے اپنا کردار ادا کر سکے۔ بلوچ نوجوانوں کو اپنے ان قومی اداروں کی مضبوطی کیلئے جدوجہد کرنا ہوگا، کیونکہ یہ ہماری اجتماعی طاقت ہیں، اگر یہ نہ ہوتے تو تعلیمی اداروں کے اندر ہمیں سکون سے پڑھنے نہیں دیا جاتا۔

ویسے تو تعلیمی اداروں میں زیادہ تر نوجوان فارغ ٹائم میں اپنا قیمتی وقت ہوٹلوں اور دیگر غیر ضروری سرگرمیوں میں ضائع کر رہے ہیں لیکن بحیثیت سیاسی نوجوان تمام طالب علموں کو سیاسی اور علمی سرکلز میں شامل ہوکر علم و شعور حاصل کرنے کیلئے تجسس پیدا کرنا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں