ٹوکن سسٹم کا خاتمہ اور اسٹیکر سسٹم کا اجراء

سراج احمد ساجدی

بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں عوام کی روزی کا دارومدار بارڈر ٹریڈ پر ہے۔ بارڈر ٹریڈ کو جب سے حکومت نے ٹوکن کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے تب سے بارڈر کاروبار سے منسلک غریب گاڑی مالکان کے بجائے بڑے بڑے سیٹوں نے حکومت سے ٹوکن لیکر غریب گاڑی مالکان کو بیچنے کا کاروبار شروع کیا ہے جس سے غریب گاڑی والوں کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہورہا ہے۔ ضلع کیچ اور آواران سے جتنے بھی لوگ ٹوکن حاصل کررہے ہیں ان میں ایک بہت بڑی تعداد کا بارڈر کاروبار سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ ٹوکن حاصل کرکے آگے بیچتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل ٹوکن سسٹم کو ختم کرکے اسٹیکر سسٹم کو شروع کرنا ہے۔

میری ڈی سی آواران اور ڈی سی کیچ سے گزارش ہے کہ وہ بارڈر کاروبار سے منسلک گاڑی مالکان کے نام پر ٹوکن سسٹم کو ختم کرکے اسٹیکر سسٹم شروع کریں۔ گاڑی مالکان کو اپنے دفتر بلا کر ان کی شناختی کارڈ کے مطابق ہر گاڑی میں ایک مخصوص اسٹیکر لگانے سے نہ صرف ٹوکن مافیا پر کنٹرول کیا جا سکے گا بلکہ اس سسٹم کے تحت صرف بارڈر جانے والی گاڑیوں کو ہی اسٹیکر لگایا جا سکے گا۔ مزید یہ کہ اسٹیکر لگانے کے بعد صرف وہی گاڑی ہی بارڈر جانے کے قابل ہوگا اس کے برعکس ٹوکن حاصل کرنے والا ٹوکن آگے بیچ کر کسی تیسرے فرد کو بارڈر بھیج سکتا ہے جس کا ریکارڈ ضلعی انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔ اسٹیکر سسٹم سے بارڈر جانے والے تمام گاڑیوں کی تفصیلات بھی ضلعی انتظامیہ کے پاس ہونگے اور اس کے ساتھ ساتھ اس سسٹم سے صرف حقداروں کو ہی فائدہ ہوگا اور ٹوکن مافیا کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

امید ہے کہ ڈی سی کیچ اور ڈی سی آواران اس تجویز پر غور کرکے بارڈر ٹریڈ سے منسلک چھوٹے کاروباری حضرات کے حقوق کو تحفظ فراہم کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں