نانی ماتا، مزاحمت کی علامت

تحریر: انور ساجدی

اعتراف ہے کہ میری مذہب کے بارے میں معلومات اچھی نہیں ہیں، عقائد، مسالک اور گروہوں کے بارے میں آگاہی کماحقہ نہیں اس کے باوجود کہ ہم ایک ایسی ریاست میں رہتے ہیں جس کا باقاعدہ سرکاری مذہب ہے اور اس کے آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائیگا۔ لیکن ہمارے خیال میں جو اقلیت ہیں انہیں بحیثیت انسان زندہ رہنے اور اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے بانی پاکستان نے جو خطاب کیا تھا اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اقلیتوں کو زندہ رہنے کا حق دیا گیا تھا لیکن 76 سال گزرنے کے بعد اقلیتوں کے لئے زندہ رہنا اور اپنے عقائد پر چلنا مشکل ہوگیا ہے اس لئے جب میں ہندو یاتریو کو ہنگلاج ماتا جاتا دیکھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے۔ حال ہی میں اس کا جو سالانہ اجتماع ہوا اس میں شرکت کے لئے بڑی تعداد میں لوگ جن میں خواتین اور بچے شامل تھے گاڑیوں اور پیدل مارچ کرتے ہوئے ہنگول جاتے دیکھے گئے۔ ہنگلاج ماتا یا نانی کا مندر ہندومت کا ایک مقدس مقام ہے۔ اگر پہلا نہ ہو تو دوسر ااور دوسرا نہ ہو تو تیسرا ضرور ہے۔ لیکن برصغیر کے قدیم مذہب کے اس مقدس مقام کی وہ قدر نہیں کی جارہی ہے جو اس کا حق ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ وفاقی حکومت یہاں پر ایک جدید کمپلیکس تیار کرتی ، تمام بنیادی سہولتیں بہم پہنچاتی لیکن سرکاری سطح پر کوئی اچھا انتظام دیکھنے میں نہیں آرہا۔ کافی سال پہلے جب انڈیا کے فارن منسٹر شری جسونت سنگھ ہنگلاج ماتا کے درشن کرنے آئے تھے تو جام یوسف کی صوبائی حکومت نے لنک روڈ کو بہتر کیا تھا اس کے بعد کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے۔ وفاق تو اس لئے گریزاں ہے کہ یہ علاقہ بلوچ گلزمین میں واقع ہے اگر یہ پنجاب میں ہوتا تو کرتارپور جتنا کمپلیکس ضرور تعمیر کرتی لیکن ہنگلاج ماتا نے ڈومیسائل کی مار کھائی ہے۔

پنجاب نے اپنی تاریخ میں دو پیغمبر یا مذہبی پیشوا پیدا کئے ہیں ایک بابا گرونانک ہیں ان کا جنم استھان وسطی پنجاب کے قلب میں واقع ہے جبکہ کرتارپور بارڈر کے قریب بے جہاں بابا جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ اپنی رحلت تک وہ کھیتی باڑی کرکے اپنا گزارہ چلاتے تھے اور دن رات ان کا لنگر چلتا تھا۔ سکھ مذہب میں لنگر چلانا بنیادی روایات کا حصہ ہے۔ شری عمران خان نے واحد اچھا کام یہی کیا کہ انہوں نے کرتارپور کا کاریڈور بنایا اور باباجی کے شایان شان کمپلیکس بنایا۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے کے باوجود بابا گروناک کی زمینوں اور عبادت گاہوں پر قبضہ نہیں کیا گیا اور انہیں جوں کا توں رہنے دیا گیا۔ پاکستانی پنجاب سکھ مذہب کے مکہ اور مدینہ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ بابا جی یہیں پیدا ہوئے ، یہیں زندگی گزاری اور یہیں پر سورگھباش ہوئے۔ حسن ابدال میں پنجہ صاحب ہے جس کے بعد ضلع ہزارہ کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ رنجیت سنگھ کے دور میں یہ علاقہ سکھوں کے قبضہ میں آگیا تھا اور مذہبی طور پر اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ راولپنڈی سے لے کر ہری پور تک کا علاقہ تاریخی طور پر برہم پترا ہے اور یہ ہندومت کا اہم ترین مرکز رہا ہے۔ جبکہ ٹیکسلا اس وقت ہندوستان کا مرکز تھا جب اشوک نے اکھنڈ بھارت قائم کیا تھا۔ تخت بائی سے لے کر ٹیکسلا تک پورا علاقہ بدھ مت کا مقدس ترین علاقہ ہے لیکن اسے پاکستانی ریاست نے نہیں سنبھالا۔ تاریخی طور پر پنجاب واحد سرزمین ہے جس نے دو مذہبی پیشوا پیدا کئے ہیں ایک سکھ مذہب کے بانی گرونانک اور دوسرا احمدیہ مذہب کے بانی غلام احمد قادیانی۔ بابا گرونانک سکھ عقیدہ کے متفقہ پیشوا ہیں اور انہیں ہندو بھی مانتے ہیں جبکہ غلام احمد قادیاتی بے حد متنازعہ اور مسلمانوں کے نزدیک زندیق اور کافر ہیں کیونکہ وہ ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ کرتارپور اور قادیان کے درمیان تھوڑا سا فافصلہ ہے اگر کبھی حالات صحیح ہوئے تو احمدیہ فرقہ کے لوگ بھی اس طرف آسکتے ہیں ۔ سکھ مذہب کے پیروکار کروڑوں میں ہیں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ قادیانی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ لیکن ان کا بھی دعویٰ ہے کہ ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایک سیاسی شخصیت نے بتایا کہ جب پانچ جٹ اکٹھے بیٹھے ہوں تو ان میں دو ضرور احمدی ہوں گے۔ قادیانیوں کے خلاف ہندوستان میں پہلی تحریک مجلس احرار کے لیڈر سید عطاءاللہ شاہ بخاری نے چلائی تھی۔ شاہ جی ایک اچھے مقرر اور بلند پایہ خطیب تھے۔ لوگ دیوانہ وار ساری رات ان کا خطاب سنتے تھے۔ انہےں گلہ تھا کہ میرے چاہنے والے تقریر تو سن لیتے ہیں لیکن مجھے ووٹ نہیں دیتے۔ ان کی جماعت مجلس احرار نے انگریزوں کے خلاف بھی تحریک چلائی تھی۔ شاہ جی ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن ان کی خواہش کے برعکس بٹوارہ ہوگیا۔ آزادی کے بعد انہوں نے دہلی مےں آخری جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”لو دلی والوں جو ملک تم نے بنایا میں کل وہاں رہنے جارہا ہوں جبکہ تم ہمیشہ کے لئے یہیں پڑے رہو گے اور ہندوﺅں کے غلام کی حیثیت سے زندگی گزارو گے“۔

قادیانیوں کے خلاف ایک عوامی تحریک جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی مودودی نے 1953 میں چلائی تھی۔ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے لاہور میں فوج طلب کرکے کرفیو نافذ کردیا گیا تھا جبکہ سرسری عدالت نے مولانا صاحب کو سزائے موت سنائی تھی تاہم کچھ عرصہ کے بعد غالباً 1954 میں یہ سزا ختم کردی گئی تھی۔ تحریک ختم نبوت میں مولانا عبدالستار خان نیازی نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا لیکن گرفتاری کے خوف سے وہ داڑھی مونچھ مونڈ کر روپوش ہوگئے۔ پولیس نے اسی حالت میں گرفتار کیا تھا اور میڈیا پر اس کا اعلان کیا تھا جس کے بعد مولانا عبدالستار نیازی کو کبھی عروج حاصل نہیں ہوا۔ حالانکہ مولانا کو شاہ احمد نورانی نے انہیں اپنی جماعت کا سیکریٹری جنرل بھی مقرر کیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1975 میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ حالانکہ قادیانیوں نے 1970 کے عام انتخابات میں من جملہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ قادیانیوں کی غالب اکثریت پنجاب میں ہے اور اس کے کئی لوگ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ عالمی عدالت انصاف کے پہلے صدر اور بانی پاکستان کے ساتھی اور وائسرائے کی کابینہ کے وزیر سر ظفر اللہ خان قادیانی تھا۔ ایوب خان کے دور میں پلاننگ کمیشن کے سربراہ ایم ایم احمد کا تعلق بھی اسی فرقہ سے تھا۔ پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام بھی احمدی تھے۔ 1965 کی جنگ کے ایک اہم کردار جنرل اختر حسین بھی قادیانی تھے۔ پاکستان کے راسخ العقیدہ سربراہ جنرل ضیاءالحق کا سسرال بھی قادیانی تھا جبکہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے والدین بھی پیدائشی احمدی تھے۔ اقلیت قرار دیئے جانے کے بعد پاکستان میں اس فرقہ کا عروج ختم ہوگیا۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو ذکریوں کا مقدس مقام کوہ مراد تربت میں ہے۔ ہنگلاج ماتا کے بعد یہ دوسرا مقدس مذہبی مقام ہے۔ ہنگلاج کی صحیح تاریخ کسی کو معلوم نہیں یا نانی مندر میں ہندو پروہتوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ درست نہیں ہے۔ اس ضمن میں تحقیق کی ضرورت ہے۔

1930 کی دہائی میں ہندو فلاسفر سارواکر نے جب رام ارج کا تصور پیش کیا تھا تو انہوں نے دو ایسے مذہبی مقامات کی نشاندہی کی تھی جو جغرافیائی طور پر ان دنوں پاکستان میں واقع ہیں۔ ایک شاردا جو نیلم ویلی میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تین سے چار ہزار سال پہلے مذہبی عبادت گاہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا جسے بعد ازاں یونیورسٹی کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ یہ مقدس مقام شدید طور پر نظر انداز ہے۔ ساواکر نے ہی ہنگلاج ماتا کو شاردا سے بھی قدیم مقام کہا تھا چونکہ ہندومت ایک دیو مالائی مذہب ہے اس لئے ہنگلاج ماتا کے بارے میں بھی غیر مرئی کہانیاں مشہور ہیں۔ دراصل وہ ایک دیوی تھی جس نے راجا مہاراجاﺅں کے خلاف بغاوت کی تھی اور ہزاروں میل دور پہنچ کر بلوچ گلزمین کی بانہوں میں پناہ لی تھی۔ ہنگلاج ماتا مزاحمت کی علامت ہے۔ بالادستی اور ظلم کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے۔ آکسفورڈ پریس کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں نصیر خان احمد زئی کی کتاب کی رونمائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ یہ ماہ رنگ اور سمی کی صورت میں بالادستی اور غلامی کے خلاف جدوجہد کا تسلسل ہے۔ واضح رہے کہ ماہ رنگ اور سمی سے مراد بلوچ زالبول ہے محض دو شخصیات نہیں۔ اس طرح ہنگلاج ماتا صرف ہندوﺅں کیلئے مقدس اور قابل احترام نہیں بلکہ بلوچوں کیلئے بھی ہے۔ اگر اچھے وقت آئے تو دنیا بھر سے لاکھوں عقیدت مند ہنگول پہنچ کر ماتا کی مزاحمتی اور عظےم ہستی کو خراج عقیدت پیش کرنے آئیں گے۔ برسوں پہلے لالہ شام کمار نے بتایا تھا کہ جس طرح ہنگول میں ہزاروں پہاڑی بکرے پائے جاتے ہیں ایک دن جہاں ضرور شیر اور چیتے بھی پیدا ہوجائیں گے۔ ہم نے پوچھا وہ کیسے تو کہنے لگے کہ بے شمار چرند اور پرند ہندومت کے عقیدہ کا حصہ اور علامات ہیںیہ علامات ضرور ہنگول کے پہاڑوں میں پیدا ہوں گی۔ گزشتہ دنوں وہاں پر ایک چیتے کی موجودگی اور بعد ازاں مارے جانے کی خبر عام ہوئی ۔ اس سے شام کمار کی بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ لہٰذا ہنگول پارک اور اطراف میں رہنے والے لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ ہر قسم کے شکار سے دور ہیں اور جو لوگ نایاب جنگلی حیات کو مارنے آتے ہیں انہیں سمجھانے کی کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ حکومت سے کوئی توقع نہیں کیونکہ اس کے وائلڈ لائف کا محکمہ برائے نام ہے اور وہ جنگلی حیات کو بچانے کے لئے کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہےں ہے۔ بلوچستان کے پہاڑوں میں جو حیات ہیں وہ اس عظےم گلزمین کی امانت ہیں اور اس کا تحفظ کرنا سب کا فرض ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں