بلوچستان کے نوجوان کو نام نہاد تعلیم کے نام پر دھوکہ دیا جا رہا ہے

تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ

قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کے عوام انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، انکو زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے، نہ یہاں کوئی ایسا ہسپتال موجود ہے جن میں بیماریوں کی تشخیص کرکے انہیں موثر علاج کیا جائے، نہ بجلی، روڈ اور نہ ہی پینے کیلئے صاف پانی میسر ہے، ذریعہ روزگار ناپید ہیں۔ والدین بڑی مشکل سے اپنے گھر والوں کا نوالہ چین کر جمع پونجی کرکے اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ بڑھاپے میں انکا سہارا بن سکیں، لیکن بد قسمتی سے بلوچستان کے لوگوں کو ہر طرح دھوکہ دیا جا رہا ہے، تحصیصی کورس کے نام پر بی ایس کرکے اپنے پیسے ، وقت اور جوانی اس نظام کے نام نہاد تعلیم کے حصول کیلئے خرچ کرتے ہیں لیکن ان تمام مشقتوں کو جھیلنے کے باوجود انہیں محض ایک کاغذ کی ڈگری تحفے میں ملتا ہے اور یہ کاغذ کی ڈگری نہ صرف بلوچستان کے ان بدقسمت والدین کی خوابوں کو چکنا چور کر دیں گے بلکہ بے روزگار ہونے کے سبب نوجوانوں کو معاشرے میں طنز اور طعنوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے، جنکے سبب زیادہ تر نوجوان نشے اور سماجی برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں، اور ان میں بعض لوگ مایوس ہو کر خودکشی کرتے ہیں۔

اس وقت بلوچستان میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد ہزاروں سے بڑھکر ہے۔ ہم ایک ایسی سرزمین میں رہ رہے ہیں جو قدرتی معدنی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن یہاں کے لوگوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوجوان ہوٹلوں، دکانوں میں مزدوری کرتے ہیں، دیگر ممالک میں پروفیشنل ڈگری حاصل کرنے کے بعد انکو فوراََ نوکری دیا جاتا ہے اور انکے لئے روزگار کے مواقعے کھولے جاتے ہیں، لیکن بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے تمام زرائعے کو بند کیا گیا ہے۔

اس وقت مختلف شعبہ جات سے فارغ التحصیل بے روزگار نوجوانوں کی تعداد بے شمار ہے۔ لائیو اسٹاک اور زراعت جیسے اہم پیشے جو معیشت میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن ان شعبوں میں ڈگری یافتہ نوجوانوں کی تعداد حد سے زیادہ ہے۔

اس وقت بلوچستان میں بے روزگار وٹرینری ڈاکٹرز کی تعداد سولہ سو 1600 سے تجاوز کر گئی ہے، اور ہر سال مختلف یونیورسٹیز میں تقریباََ 200 سے زائد وٹرینری ڈاکٹرز فارغ ہو رہے ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پانچ سالوں سے حکومت کی جانب سے پروفیشنل وٹرینری ڈاکٹرز کیلئے کوئی پوسٹ تخلیق نہیں کی گئی ہے۔ حکومت کی ناقص کارکردگی کو دیکھ کر یہ بات واضح ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو ایک کاغذ کی ڈگری کے نام پر دھوکہ دیا جا رہا ہے، یہاں کے نوجوان اپنے گھر بار چھوڑ کر اپنی آدھی عمر، پیسے، سب کچھ تعلیم کے حصول کیلئے صرف کرتے ہیں اور انہیں حکومت اور نااہل حکمرانوں کی طرف سے محض دھوکہ ملتا ہے۔ حالانکہ میں نے نااہل حکمرانوں کے مردہ ضمیر اور غیرت کو جگانے کیلئے چار سال پہلے ایک تحریر بعنوان ”ڈاکٹر عنایت بلوچ چائے والے کیسا بنا؟“۔ آج تک ڈاکٹر عنایت بلوچ چائے ہی بیچ رہا ہے اور انکے والدین کے دیکھے گئے خواب تعبیر نہ ہوسکے۔ اسکے علاوہ ہمارے کئی فارغ التحصیل پروفیشنل وٹرینری ڈاکٹرز نے اپنی ڈگریاں ڈبّوں میں پھینک کر ماہانہ پندرہ ہزار کے عوض زمیاد گاڈیاں اور ٹریکٹرز چلا رہے ہیں۔ لیکن اس عظیم سرزمین کے وسائل کو لوٹنے والے حکمران اپنے مونچھوں کو مروڈ کر بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ لیکن وہ قوم کے نوجوانوں کو اس بدترین حالات میں دیکھ کر انکا ضمیر کبھی نہیں جاگتا۔

البتہ تعلیم تو انسان کی تیسری آنکھ کی مانند ہے لیکن میں بلوچستان کے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے مستقبل میں سرکاری نوکری حاصل کرنے کیلئے تعلیمی اداروں میں داخلہ لے کر اپنا قیمتی وقت، پیسے اور انرجی کو خرچ کر رہے ہو تو آپ بزات خود کو اور اپنے والدین کو دھوکہ دے رہے ہو۔ یہاں تعلیم کے نام پر کچھ مخصوص کورس کو رٹا کر نوجوانوں کی ساری زندگیاں برباد کی جا رہی ہیں، ایسے تخصیصی تعلیم حاصل کرنے سے نہ شعور اور علم حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی نوجوانوں کو روزگار دیا جاتا ہے۔ بس یہاں صرف ایک ڈرامہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے، ہر حکومت کرپشن اور اپنی نااہلی کا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈالتا ہے، اور اسیطرح موجودہ حکومت اپنے پانچ سالوں کے دورانیے میں اپنا بینک بیلنس برابر کرکے چلا جاتا ہے۔ محکوم عوام ہر آنے والے دنوں میں پسماندہ تر اور بدترین زلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ہے بلوچستان کے بدقسمت نوجوانوں کی مستقبل کا صورتحال!

اپنا تبصرہ بھیجیں