پی ٹی آئی پر پابندی کی تجویز
تحریر: انور ساجدی
یہ ریاست ٹھیک نہیں ہوسکتی کیونکہ طویل عرصہ سے اس کا انصرام و انتظام ”راکھشون“ کے ہاتھوں میں ہے۔معیشت کے ڈوب جانے کے باوجود ایسے اقدامات جاری ہیں جو شدید بیڈ گورننس اور دوسرے لفظوں میں کرپشن کے زمرے میں آتے ہیں۔سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے سپریم لیڈر نوازشریف نے جو پرائیویٹ بجلی گھر لگائے انہوں نے ریاست کی معیشت کو دبوچ لیا ہے۔ان بجلی گھروں میں ساہیوال کا کول پاور پلانٹ بھی شامل ہے جس کا کوئلہ انڈونیشیا اور بہت دور کے ممالک سے منگوایا جاتا ہے۔آج کے ڈان کی رپورٹ کے مطابق کوئلہ کی درآمد پر سوا ارب ڈالر خرچہ آتا ہے۔ان فاش غلطیوں کے باوجود نوازشریف دعوے دار ہیں کہ وہ معیشت میں بہتری کے معمار ہیں اور مستقبل میں ان کا جو معاشی وژن ہے اس پر عملدرآمد ضروری ہے۔اسی طرح ن لیگ کے ایک عبوری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قطر سے جو مہنگی ایل این جی منگوائی اور پورٹ قاسم میں جو پرائیویٹ ٹرمینل لگے ان کا خرچہ بھی کھربوں میں ہے یہ جو آئی پی پی ایز کے قرضوں کا انبار لگا ہے یہ انہی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔اپنی مدت سے زائد وقت گزارنے والی نگراں حکومت نے بھی بلاضرورت 3 کھرب کی گندم منگوا کر ریاست کو زبردست چونا لگایا ۔ اس کے باوجود کہ ملک میں فاضل گندم موجود تھی شہبازشریف کی حکومت نے بھی نگراں حکومت کی تقلید میں ایک کھرب کی فالتو گندم منگوائی۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان کا کسان زندہ درگور ہوگیا ہے۔حکومت کی جانب سے بے رحمی کا یہ عالم ہے کہ سب سے بڑا صوبہ پنجاب گندم کی خریداری سے صاف انکاری ہے۔ابھی گندم کی درآمد کے نتائج بھگت رہے تھے کہ شہبازشریف حکومت نے پیاز کی تیار فصل کو تباہ کرنے کی خاطر انڈیا سے پیاز کی درآمد شروع کر دی۔حکمرانوں میں کیا تضاد ہے ایک طرف کہا جاتا ہے کہ بھارت ازلی دشمن ہے اس سے تجارت نہیں ہوسکتی ہے دوسری جانب اس سے اجناس کی تجارت جاری ہے۔پاکستانی حکمران یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ اگر زراعت ٹھیک نہیں ہوگی اور کسان کی حالت درست نہیں ہوگی تو اس پسماندہ ریاست کی معیشت کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتی کیونکہ پاکستان کے پاس زرعی اجناس کے سوا کچھ نہیں ہے۔باقی اس کی تمام تر برآمدات ٹیکسٹائل پر مشتمل ہیں لیکن اس شعبہ پربھی ایک مافیا کا قبضہ ہے جو حکومت سے مراعات اورقرضوں کی مد میں کھربوں روپے وصول کر رہا ہے۔تمام تر کوششوں کے باوجود برآمدات صرف30 ارب ڈالر پر منجمد ہیں۔اگر یہی حال رہا تو کسان آئندہ سال گندم چاول اور پیاز نہیں اگائیں گے۔اگر وہ ایسا کریں تو حکمران خوش ہوں گے کیونکہ وہ یہ کام اجناس باہر سے منگوا کر اپنے آپ کو فائدہ پہنچائیں گے۔ان کے نزدیک ملک بھاڑ میں جائے۔ شہباز حکومت کی ساری امیدیں اس بات سے وابستہ ہیں کہ سعودی سرمایہ کار آئیں گے ۔اربوں ڈالرز لگائیں گے اور معیشت چندماہ کے دوران ٹھیک ہو جائے گی۔لگتا ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھی ہوئی بیوروکریسی کا کوئی پلان ہی نہیں ہے۔اتنی بڑی ریاست کو اللہ توکل پر چلایا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف سے نئے قرضے کی درخواست کر دی گئی ہے لیکن اس نے پہلے سے زیادہ کڑی شرائط عائد کردی ہیں۔کھربوں روپے ٹیکس عائد کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔بجلی گیس اور دیگر ضروریات کو مزید مہنگی کرنے کا مطالبہ ہے پنشن ہولڈرز اور54ہزار تک تنخواہ وصول کرنے والوں پر بھی انکم ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔اس سے درمیانہ طبقہ اور ملازمت پیشہ افراد کی کمر ٹوٹ جائے گی۔”سولر“کی بھی کوئی پالیسی نہیں ہے۔کسانوں اور ملک کے بڑے بڑے سیٹھ صاحبان کو ایک ہی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔کسان تو قرضے لے کر سولر خرید رہے ہیں جبکہ کراچی لاہور اسلام آباد فیصل آبادراولپنڈی اور پشاور کے بڑے بڑے سیٹھ صاحبان اپنے محلات پر سولر کے سینکڑوں پلیٹ لگا کر اپنی بجلی خود پیدا کر رہے ہیں۔مہنگی بجلی کا سارا بوجھ غریبوں پر پڑ رہا ہے۔دوسری طرف حکومتی اور غیر حکومتی اشرافیہ اپنے اخراجات یعنی شاہ خرچیوں میں کمی لانے پر تیار نہیں ہیں۔غیرپیداواری اخراجات جن میں سیکورٹی کے بے تحاشہ اخراجات شامل ہیں بڑھتے جا رہے ہیں۔جب تک وسیع پیمانے پر اصلاحات نہیں ہوں گی حکومت پر بوجھ بڑھتا جائے گا۔مجموعی طور پر صورتحال یہ ہے کہ مالیاتی اعتبارسے ریاست ایک بند گلی میں ہے اور موجودہ حکمرانوں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ کوئی معجزہ رونما کرسکیں جبکہ سیاسی عدم استحکام پوائنٹ آف نوریٹرن پر ہے۔آئی ایم ایف نے پاکستانی صورت حال پر اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے زیادہ ووٹ لئے لیکن حکومت ان دونوں جماعتو ںکی بن گئی ۔اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت نمائندہ نہیں ہے۔ یہ فارم47 کی پیداوار ہے۔یعنی جب تک تحریک انصاف سے کوئی مفاہمت نہیں ہوگی عدم استحکام ختم نہیں ہوسکتا لیکن مفاہمت کا یہ عالم ہے کہ حکمران کہتے ہیں کہ انتشاری سیاسی ٹولہ ہے کوئی بات نہیں ہوگی یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ نیپ کی طرح پی ٹی آئی پر بھی پابندی کا ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا جائے۔اگرچہ اس تجویز پر عمل درآمد مشکل ہے تاہم ایسا کیا گیا تو یہ اقدام تباہ کن ثابت ہوگا۔کیونکہ اس سے سیاسی انتشار مزید بڑھ جائے گا اور ریاست کو نئے مگر گھمبیر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔نت نئے معاملات سر اٹھائیں گے اور پختون آبادی میں بغاوت جنم لے گی۔کافی عرصہ سے ٹی ٹی پی پاکستان کے سربراہ نورمحسود طرح طرح کے بیانات دے رہے ہیں اور پاکستان کی وحدت کے بارے میں منفی باتیں کر رہے ہیں۔لہٰذا پی ٹی آئی پر پابندی ایک غیردانش مندانہ اقدام ہوگا۔حکمرانوں کو اس سے گریز کرنا چاہیے۔ایسی پابندی ذوالفقار علی بھٹو نے1975 میں نیپ پر لگائی تھی اور اس کے لیڈروں پر حیدرآباد سازش کیس کے تحت غداری کے مقدمات قائم کئے تھے لیکن5جولائی1977 کو مارشل لاءکے نفاذ کے بعد جنرل ضیاءالحق نے سازش کیس ختم کر کے نیپ کے لیڈروں کو رہا کر دیا تھا۔کچھ ہی عرصہ بعد نیپ کی جگہ اے این پی قائم کی گئی تھی جو تاحال قائم ہے۔اسی طرح ضیاءالحق نے پیپلزپارٹی کو توڑنے کے لئے لاکھ جتن کئے تھے لیکن وہ جماعت بھی برقرار ہے۔پرویز مشرف نے اپنے دور میں ن لیگ کو توڑنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن ن لیگ آج پنجاب اور مرکز میں برسراقتدار ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈائیلاگ یا گرینڈ ڈائیلاگ شروع کیا جائے،عمران خان سے بھی بات چیت کا راستہ اپنایا جائے۔اگر کوئی درمیانی راستہ نکل سکتا ہے تو ملک میں نئے انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ان انتخابات میں مداخلت نہ کی جائے جوجماعت کامیابی حاصل کرے اسے حکومت سازی کا موقع دیا جائے۔ پاکستان اتنے سنگین بحرانوں سے دوچار ہے کہ ہائی برڈ یا جعلی حکومتوں کے قیام سے اس کے بحران حل نہیں ہوسکتے صرف ایک نمائندہ حکومت ہی کردار ادا سکتی ہے۔اگر اعلیٰ حکمرانوں کا یہ فیصلہ ہے کہ یہاں جمہوریت کو پنپنے نہ دیا جائے اور مستقل طور پر ہائی برڈ حکومتیں قائم کی جائیں تو ان کی مرضی۔اگر آئین پر عمل درآمد التواءمیں رہے انصاف مفقود ہو عوام کی رائے کا احترام کے بجائے شخصی حکمرانی جاری رکھی جائے تو طویل عرصہ تک کوئی بہتری نہیں آسکتی۔