ضروری سہولتوں کے بغیر لاک ڈاؤن

عوامی جمہوریہ چین نے اپنے سائنٹفک نظام،مدبرانہ قیادت اور بیدار وباشعور عوام کے تعاون سے حیاتیاتی جنگ سے جس موثر انداز میں نمٹا اور نمٹ رہا ہے اور پوری دنیا اس کامشاہدہ کررہی ہے اور اعتراف بھی۔لیکن ہمارے ملک کا بوسیدہ نظام کورونا وائرس کی آمدسے جس طرح لرز رہا ہے وہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔یکے بعد دیگر ے تمام صوبائی حکومتیں فوج طلب کرنے پر مجبور ہیں۔جمہوریت کہتے ان کے دعوے اور نعرے سارے ہوا ہوچکے ہیں لیکن یہ بات سوچھنے کی ہے کہ عالمی وباء سے نمٹنے کے لئے ڈکٹیٹر شپ عملے اور خود عوام جس کو تعاو اور مدد کی ضرورت ہے اس پر توجہ دینے کی بجائے حکومت انتظامی اقدامات پر زیادہ توجہ کیو ں دے رہی ہے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ شہروں کی لاک ڈاؤن کرنے سے پہلے عام لوگوں کے گھروں پر راشن اور ضروری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنائے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایمرجنسی ڈیوٹی انجام دینے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کو ضروری یونیفارم اور حفاظتی سامان تک مہیا نہیں اور ضروری کٹس نہ ہونے کے باعث ڈاکٹروں اور طبی عملے کی اموات ہورہی ہے لیکن کوئی اس پر نوٹس لینے والا نہیں۔حکمران طبقے کے افراد لاک ڈاؤن میں تمام سہولتوں کے ساتھ اپنے گھروں میں محفوظ ہوں گے لیکن غریب آدمی اور خاص طور سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد بے روز گار اور فاقہ کشی کا شکار ہوں گے جس کی کسی حکومت کو کوئی فکر نہیں مختلف علاقوں میں قرنطینہ کئے گئے افراد نے ضروری سہولتوں اور علاج کا مطالبہ کیا تو اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ لاک ڈاؤن کئے گئے شہروں میں ایک دو روز گزارنے کے بعد لوگ روزی روٹی کے لئے باہر آنے پر مجبور ہوں گے حکمران عوام کو کوئی سہولت فراہم کرنے کو تیار نہیں اور انہیں جبراً گھروں میں مقیم رکھنا چاہتے ہیں۔ملک کی معاشی حالت کے پیش نظر انہیں اندازہ ہے کہ بھوک کا شکار عوام خاص طور سے محنت کش طبقہ احکامات کی خلاف ورزی پر مجبور ہوگا یہی وجہ سے کہ ریاست کی قوتوں کو مجتمع کیا جارہا ہے جوبالآخر عوام کے خلاف استعمال ہوں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں