دین اور دنیا میں توازن
انور ساجدی
کرونا پاکستان آکر شیعہ سنی ہوگیا ہے جبکہ باقی دنیا کیلئے یہ ایک وبا ہے جو علاقہ ملک نسل اور عقیدہ دیکھے بغیر حملہ آور ہوتا ہے شروع میں جب وبا پھیلی تھی تو اسکی وجہ ایران سے آنے والے زائرین کو ٹھہرایا گیا تھا کیونکہ اس وقت تک پاکستان میں کرونا کے آثار نہیں تھے ایران سرحد وفاقی حکومت کے فیصلہ کے تحت کھولی گئی تھی جبکہ صحت کے معاون خصوصی ڈاکٹرظفر مرزا خود وہاں گئے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ کرونا سے متاثرہ مریضوں کی بڑی تعداد ایران سے داخل ہوگی اسی لئے انہوں نے وہاں پر قرنطینہ قائم کرنے کی ہدایت کی لیکن وفاقی حکومت نے زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی بلکہ بے شمار مریضوں کو احتیاطی تدابیر کے بغیر یک جا رکھا گیا یہ صورتحال دیکھ کر بلوچستان کی بے بس اور غریب حکومت نے زائرین کو اپنے اپنے صوبہ روانہ کیا جس پر وفاقی حکومت کے ایک سے زائد ذمہ دار افراد نے کہا کہ تفتان پاکستان کا ووہان بن گیا ہے ابھی شیعہ زائرین کی بات چل رہی تھی کہ رائے ونڈ میں روایتی تبلیغی اجتماع منعقد ہوا اگرچہ اس سال حاضری زیادہ نہ تھی پھر بھی ایک لاکھ لوگوں نے اس میں شرکت کی پنجاب حکومت نے خوف یا وصفداری کی وجہ سے منتظمین کو سمجھایا نہیں کہ ہولناک بیماری کی وجہ سے اجتماع منسوخ کیاجائے تاہم اجتماع کے بعد جب دوہزار لوگ موجود تھے تو ان میں سے کئی لوگ کرونا وائرس کا شکار ہوگئے جبکہ رائے ونڈ سے جو لوگ ملک بھر میں پھیل گئے تھے انہوں نے ہر جگہ وبا پھیلائی نہ صرف یہ بلکہ ملک کے کئی مقامات پر جو تبلیغی حضرات جمع تھے وہ بھی بیماری میں مبتلا پائے گئے اس طرح یہ الزام بیلنس ہوگیا کہ کرونا پھیلانے کا ذمہ دار کون ہے؟
پاکستان میں اگرچہ مستند مریضوں کی تعداد ابھی کم ہے لیکن گمان یہی ہے کہ جب زیادہ ٹیسٹ ہونگے تو متاثرین کی تعداد بہت بڑھ جائیگی اور شائد جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ ہوجائے خداکرے کہ اموات کم ہوں لیکن زیادہ تعداد کی وجہ سے حکومت کیلئے بہت بڑے مسائل کھڑے ہونگے کیونکہ ضروری طبی سہولتیں اور مطلوبہ وسائل دستیاب نہیں ہیں تمام ماہرین کہتے ہیں کہ اصل صورت حال 2ہفتے بعد واضح ہوگی امریکی صدر ٹرمپ نے بھی یہی کہا ہے جبکہ وہاں پر اس وقت کرونا متاثرین کی تعداد دو لاکھ اور ہلاک شدگان کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے خدشہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد امریکہ کرونا کا سب سے متاثرہ ملک ہوگا چین اور اٹلی سے بھی زیادہ بلکہ ساری دنیا سے زیادہ ایک تو اسکی آبادی35کروڑ ہے دوسرے یہ کہ صدر ٹرمہ نے تاخیر سے اقدامات اٹھائے بلکہ شروع میں وہ کرونا کومذاق سمجھ رہے تھے اور انہوں نے لاک ڈاؤن کی تجویز کوحقارت سے مسترد کردیا تھا اسی رویہ کی وجہ سے آج امریکہ بھر میں ٹرمپ کو سخت تنقید اورملامت کا سامناہے۔
لاک ڈاؤن چائنا کاماڈل ہے اور یہ زریعہ اس لئے اختیار کیا گیا کہ لوگوں کو بیماری ایک دوسرے سے نہ لگے لیکن یہ کوئی ضمانت نہیں اگر وائرس فضا میں موجود ہو تو بھی اسے پھیلنے سے نہیں روکا جاسکتا سنگاپور میں مقیم ایک بھارتی نژاد ڈاکٹر کاکہنا ہے کہ انسانوں کی اموات سے کہیں زیادہ بڑاالمیہ عالمی معیشت کی موت ہوگی کیونکہ وبا تو ختم ہوجائے گی لیکن معیشت کی بحالی میں کافی وقت لگے گا۔
آج دوپہر کو ایک عام رکشہ والا کہہ رہا تھا کہ
فاقوں سے موت کرونا کی موت سے بدترہے
اس سادہ سی بات کیلئے فلسفہ دان ہونا ضروری نہیں ہے آج صبح سے بھوکے لوگوں کے غول کے غول سڑکوں پر امداد کیلئے نکل آئے تھے جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعدادشامل تھی وفاقی اور سندھ حکومت کایہ حال ہے کہ ہرروز ایک میٹنگ اسکے بعد ایک اور میٹنگ پھر کابینہ کا اجلاس اسکے بعد کورکمیٹی کا اجلاس لیکن بھوکے اورفاقہ زدہ لوگوں کیلئے فوری امداد کی کوئی حکمت عملی طے نہیں ہورہی ہے۔مراد علی شاہ نے شروع میں جو نیک نامی کمائی تھی وہ تاخیر کرکے اسے گنوارہے ہیں جبکہ وزیراعظم ٹائیگر فورس بنانے چلے ہیں پتہ نہیں کب یہ فورس بنے گی کب امداد تقسیم ہوگی اور اس وقت تک معلوم نہیں کتنے فاقہ زدہ لوگ مرجائیں گے انگلینڈ کی مثال سامنے ہے جہاں بوڑھوں بچوں اور کم آمدنی والے لوگوں کوحکومت ہفتہ بھر کا راشن انکے گھروں میں پہنچارہی ہے۔
پاکستان میں ابھی تو ٹاسک فورس بنی نہیں ہے وزیراعظم اب تک قوم سے تین بار خطاب کرچکے ہیں ایک دوبار اور بھی خطاب کریں گے وہ زمینی حقائق اور حالات کی سنگینی سے واقف نہیں ہیں یہ جو کراچی میں فاقہ زدہ لوگوں کے غول گھوم رہے ہیں یہ کسی وقت بھی لوٹ مار شروع کرسکتے ہیں پھر کیا ہوگا سندھ حکومت نے ایدھی نیٹ ورک اور کچھ این جی اوز کے ذریعے امداد تقسیم کرنے کافیصلہ کیا ہے لیکن ابھی تک اس پر عملدرآمد شروع نہیں ہوا ہے اگر لاک ڈاؤن مزید دوہفتوں کیلئے جاری رکھنا مقصود ہے تو سندھ حکومت کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا کیونکہ اس وقت لوگ کرونا کی وبا سے خوفزدہ نہیں بلکہ بیروزگاری اور بھوک کی وجہ سے زیادہ پریشان ہیں وفاقی اورصوبائی حکومتوں کوجان لینا چاہئے یہ عمل کا وقت ہے باتوں کا نہیں ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بیوروکریسی امداد یافنڈز کے اجراء میں اسی طریقہ کار سے کام لے رہی ہے جو عام حالات میں اس کا معمول ہے وہ وزیراعظم کو غلط بریفنگ بھی دے رہی ہے اور وزیراعظم کا موڈ ”دیکھ کر سب اچھا“ کی گردان کررہی ہے اسی لئے وزیراعظم بار بار کہہ رہے ہیں کہ گھبرانا نہیں مقابلہ کرنا ہے بھلا خالی ہاتھ اور خالی پیٹ لوگ اتنی بڑی بلا کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں جب راتوں کو بچے بھوک سے بلبلارہے ہوتے ہیں پھر لوگ نہ گھبرائیں تو اور کیاکریں۔کراچی کے اسٹورزمیں تو ضروری اشیاء کم ہونے کی وجہ سے انکی قلت پیدا ہوگئی ہے اگرصورتحال اسی طرح جارہی رہی تو ملک میں قحط کی سی صورتحال پیدا ہوجائیگی کیونکہ کارخانے اورفیکٹریاں بند ہیں مزید پیداوار نہیں ہورہی ہے ظاہر ہے کہ سامان کہاں سے آئیگا۔
ان حالات میں معاملات صرف اللہ کے ہاتھ میں ہیں اگر وہ اپنی مخلوق پر رحم کھائے تو کھائے حکومت تو مایوس کررہی ہے۔
اسی طرح مذہبی طبقہ بھی الگ سوچ کی وجہ سے تدبیر اور حکمت سے کام لینے کی بجائے اپنی پرانی سوچ پر کارفرما ہے۔حالانکہ تبلیغی لوگ تو بظاہر بھلے لوگ ہیں اور بیشتر کا دعویٰ ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں حضرت عبدالوہاب کی رحلت کے بعد محترم طارق جمیل کو ان کا جانشین بننا چاہئے لیکن وہ اس موقع پر آکر دربار سرکار سے وابستہ ہوگئے کرونا کے شروع میں انہوں نے جو رقت انگیز دعائیں مانگی تھی اس سے لوگوں کو روحانی حوصلہ ملا تھا لیکن اچانک راگ درباری گاکر اورحکمران دقت کی خوشنودی اور بلاوجہ تعریف میں لگ کر ایک اور سمت کی جانب نکل گئے انکے اس طرزعمل سے خلق خدا کوشدید دھچکہ لگا۔درمیان میں ایک خبر یہ آئی ہے کہ تبلیغ کیلئے سوڈان والی جماعت پروازوں کی بندش کی وجہ سے وہاں پر پھنس گئی ہے اس جماعت کے امیر نے بتایا کہ ان لوگوں کا تعلق گلیات سے ہے انہوں نے خصوصی جہاز بھیج کر محصور پاکستانیوں کو واپس لانے کامطالبہ کردیا اس سے ذہن میں یہ سوال پیدا کیا کہ مری،نتھیاگلی اور ایوبیہ کے لوگوں کا کیاکام جو افریقہ میں جاکر تبلیغ کریں یہ لوگ تو ہند کویااردو کے سوا اور زبان بھی نہیں بول سکتے یہ افریقہ میں کس زبان میں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے ہونگے لگتا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کی تبلیغی جماعتیں سرگرم ہونگی سوچنے کی بات ہے کہ ان لوگوں کے بھاری اخراجات کون اٹھاتا ہے؟اسی طرح پتہ چلا کہ رائے ونڈ اور ملک کے دیگر حصوں میں جو تبلیغی اجتماعات ہوئے تھے ان میں غیر ملکیوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کی ایک مرکزیت ہے یا الگ ملکوں کی الگ الگ جماعتیں ہیں جہاں تک اسلامی درس وتدریس کا تعلق ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے لیکن ایسے ممالک میں تبلیغ کرنا جہاں 90فیصد آبادی مسلمانوں پرمشتمل ہوکیا اس کاجواز ہے تبلیغ کی تو زیادہ ضروت وہاں پر ہے۔جہاں کفارزیادہ ہوں۔
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ وہ کونسی قوت ہے جو تبلیغی جماعت کوکنٹرول کررہی ہے کیونکہ مجموعی مشاہدہ یہ ہے کہ اس جماعت کے لوگ مسلمانوں کوتلقین کرتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی جگہ ہے اصل مقام آخرت ہے اس لئے آپ اس دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی فکر کیجئے اسی وجہ سے دنیا کے سارے مسلمان ملک سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے ہیں کسی مسلمان ملک نے آج تک کوئی کارآمد چیز ایجاد نہیں کی ہوائی جہاز سے لیکر جدید سائنسی آلات تک سب کچھ کافر ملک بنارہے ہیں جلد یہ خبر بھی آجائے گی کہ کسی کافر ملک نے کرونا کی ویکسین ایجاد کرلی ہے کیونکہ دیگر خطرناک بیماریوں کی ویکسین بھی انہی کم بخت کافرسائنس دانوں نے ایجاد کی ہیں۔
یہ دین اور دنیا میں عدم توازن
یاترک دنیا کی تلقین تبلیغی
جماعت کا بنیادی فلسفہ ہے
ایسا کیوں ہے اور اسکے پیچھے کون ہے حالانکہ ترک دینا کا پہلا فلسفہ مہاتما بدھ نے پیش کیاتھا پھر بھی چین،جنوبی کوریا اور سنگاپور میں بدھا کے پیروکار ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔چونکہ مولانا فضل الرحمن نے تبلیغی جماعت کے بارے میں کچھ باتوں کو پروپیگنڈہ قراردیا ہے لہٰذا ملک کے سب سے بڑے دینی رہنما کی حیثیت سے یہ انکی ذمہ داری ہے کہ وہ تبلیغی جماعت کے خدوحال اسکے مقاصد اور پیچھے کارفرما قوتوں کے بارے میں سادہ مسلمانوں کو اعتماد میں لیں اور انکو مطمئن کریں۔