آنچلوں کے پرچم

انور ساجدی

چند روز قبل سریاب روڈ پر بلوچ خواتین کے مظاہرے کو روکنے کیلئے ایک پولیس اہلکار نے نادانستگی یا شعوری طور پر ایک بچی کے دوپٹہ پر ہاتھ ڈالا۔یہ تصویر ساری دنیا میں وائرل ہوگئی اور حکومتی رویہ پر سخت تنقید ہوئی۔اس مسئلہ کو بلوچستان اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رکن مولانا ہدایت الرحمن نے اٹھایا اور کہا کہ سریاب روڈ پر ہماری ماں کی چادر کو ایک پولیس والا کھینچ رہا ہے۔کیا وہ ہماری غیرت نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ یہ1948 سے ایک تسلسل جاری ہے۔مولانا نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ جرمنی میں پاکستانی پرچم کی بے حرمتی ہوئی ہے اس کے خلاف قرارداد آنی چاہیے لیکن سریاب میں ایک بلوچ ماں کی چادر کھینچنے کے واقعہ کے خلاف بھی قرارداد منظور ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہماری مائوں اور بہنوں کو مارنا قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج سب کا حق ہے پرامن احتجاج کے خلاف طاقت کا استعمال درست نہیں ہے۔انہوں نے وزیر داخلہ کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا اور پولیس حکام کے احتساب کا بھی مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ سریاب کی بیٹی کی چادر کی بے حرمتی کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کی جائے۔مولانا کے خطاب پر پیپلزپارٹی کے رکن میر علی مدد جتک نے جواب دیا لیکن وہ طیش میں آ گئے اور ان کے منہ سے ایک نسلی تفاخر کا جملہ نکلا۔میر علی مدد جتک ایک سینئر رہنما ہیں وہ پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر بھی رہے ہیں لہٰذا نہیں الفاظ کے چنائو میں احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ یہ 21ویں صدی ہے۔یہ انسانی عقل سے ماوریٰ ترقی کا دور ہے۔یہ ڈیجیٹل ایج ہے۔یہ ابلاغ کا عہد ہے انسان تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے یہ18ویں یا19ویں صدی نہیں ہے۔یہ نسلی تفاخر کا دور نہیں ہے۔ہمارے سامنے محکوم انسانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں۔اتنی تبدیلی آئی ہے کہ دو سو سال تک ہندوستان کو غلام بنانے والے برطانیہ عظمیٰ کا وزیراعظم رشی سونک منتخب ہوا۔امریکہ میں سیاہ فام بارک اوبامہ صدر منتخب ہوگیا اور رواں الیکشن میں ہندوستانی نژاد کاملہ ہیرس ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار بننے جا رہی ہیں۔یہ بنیادی حقوق اور انسانیت کا دور ہے دنیا تیزی کے ساتھ گلوبل ولیج میں تبدیل ہوگئی ہے۔قبائلی لارڈ اور نوابوں کا دور گزر چکا ہے۔معاشرے قبائل کے بجائے نیشن میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ذات پات کی تقسیم ختم ہو رہی ہے۔یہ تبدیلی بلوچستان میں بھی وقوع پذیر ہو رہی ہے۔پرانا نظام ٹوٹ رہا ہے اور عوام یک جا ہو رہے ہیں۔آنچل کے ذکر سے یاد آیا کہ ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کے رکن اور شہرہ آفاق اردوشاعر اسرار الحق مجاز نے اپنی مشہور نظم نوجوان خواتین سے خطاب میں نہایت اثرانگیزی کے ساتھ کلام کیا ہے۔
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے ایک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
غور کیجیے کہ جو کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے وہ مجاز کی نظم کے مطابق ہے۔حالات نے بیٹیوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ گھروں سے باہر نکلیں۔جنس کی تخصیص ختم کر دیں اور میدان میں اپنے آنچل کو پرچم بنائیں چنانچہ سریاب میں اگر ایک بیٹی کا آنچل کھینچا گیا تو کوئی بات نہیں کیونکہ وہ اور اس کے ہمنوا ایسے عمل کے لئے ذہنی طور پر تیار تھے۔اسلام آباد میں کیا کچھ نہیں ہوا یہ پہلا موقع تھا کہ بیٹیوں پر پانی کی توپیں چلائی گئیں اور سینکڑوں آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے لیکن انہوں نے اس ناگہانی صورتحال کا دلیری اور حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کیا اور طاقت کے بے رحمانہ استعمال کرنے والوں کو پسپا کر دیا۔
1960 کی دہائی میں دنیاکے مختلف حصوں میں جب غلامی کے خلاف تحاریک زوروں پر تھیں تو جمیلہ آف الجزائر نے فرانسیسی ظلم کے خلاف تحریک کی قیادت کی اس دور میں فلسطین کی لیلیٰ خالد نے جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کر دی۔انگریزوں کے دور میں جب میوند کی جنگ میں مرد حضرات مارے گئے تو باقی فرار ہوگئے ایسے میں میدان جنگ میں ایک لڑکی آئی اس نے اپنے آنچل کو پرچم بنا لیا اورجنگ کی قیادت کرتے ہوئے انگریزوں کی فتح کو شکست میں تبدیل کردیا۔یہ جنگ1880 میں ہوئی تھی۔فتح کی اس ملکہ ملالہ کی عمر18سال تھی۔میوند میں آج بھی ملالئی کا مزار قائم و دائم ہے۔علامہ اقبال کی وہ نظم جس کا عنوان ہے فاطمہ بنت عبداللہ سب نے پڑھی ہوگی یہ لڑکی یورپی استعمار کے خلاف طرابلس کے میدان جنگ میں اتری تھی اور امرہوگئی۔بلوچستان کی گزشتہ تاریخ میں خان بانڑی اور گل بی بی کے جنگی کارنامے بھی ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب جنگ کا میدان ہو تو کوئی نہیں دیکھتا کہ لشکر خواتین پر مشتمل ہے یا مردوں پر۔ہندوستان میں جھانسی کی رانی کی مثال سامنے ہے۔انہوں نے کھلی جنگوں میں انگریزوں کو شکست دی لیکن اپنوں کی سازش کی وجہ سے اپنی جان اپنی سرزمین پر نچھاور کردی۔جنگ تو جنگ ہوتی ہے وہ بے رحم ہوتی ہے اور کسی پر ترس نہیں کھاتی۔فی زمانہ جنگ کے انداز بدل گئے ہیں۔مہاتما گاندھی نے جنگ کا طریقہ کار بدل دیا۔انہوں نے کروڑوں لاکھوں انسانوں کو اپنا ہتھیار بنالیا اور بالآخر انگریزوں کو شکست سے دوچار کردیا۔ان کی تحریک پرامن تھی آج کل بھی بنیادی انسانی حقوق کی بنیاد پر دنیا کے مختلف مقامات پر پرامن تحاریک جاری ہیں۔تشدد کے بجائے ان پرامن تحاریک کو عالمی رائے عامہ کی پذیرائی حاصل ہے لیکن اسرائیل جیسے ممالک بھی ہیں جو پرامن جدوجہد کو نہیں مانتے اور بچے اور خواتین کو گاجر مولیوں کی طرح کاٹتے ہیں۔برما کی مثال سامنے ہے جہاں پرامن جمہوری تحریک کو طاقت کے ذریعے کچل دیا گیا۔چین میں چیئرمین مائو نے عظیم لانگ مارچ کے ذریعے کامیابی حاصل کی لہٰذا جہاں جہاں لوگ پرامن جدوجہد کر رہے ہیں انکو احتجاج کرنے دیا جائے۔خون بہنے سے کہیں بہتر ہے کہ معاملات کو پرامن رکھا جائے۔اگر پرامن احتجاج کا راستہ روکا جائے تو اس کی جگہ یقینی طور پر تشدد لے لیتا ہے جس کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے اور لوگ انتہا پر چلے جاتے ہیں۔بنگلہ دیش میں حالیہ تحریک کے دوران جب حسینہ واجد نے طاقت کا استعمال کیا تو بہت زیادہ نقصان ہوا اور وہاں کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔بنگلہ دیش کی تحریک نوجوان طلباء کے ہاتھوں میں تھی جن میں لڑکیوں کی بڑی تعداد شامل تھی اور انہوں نے اپنے آنچلوں کو پرچم بنا رکھا تھا۔طاقت کا جو استعمال ہے اس کا نتیجہ تو ضرور نکلتا ہے لیکن وہ طاقت استعمال کرنیوالوں کیخلاف نکلتا ہے۔ لاطینی امریکہ میں امریکہ نے بے شمار جمہوری تحاریک کو کچلا۔امریکہ نے چلی کے لیڈرآ لندے کا قتل کیا۔ وینزویلا کے لیڈر ہوگوشاویز کو کینسر کی غلط ادویات دیں اس کے باوجود تمام امریکی حمایت یافتہ آمروں کو زوال آیا۔برازیل میں لولا کیخلاف کیا کیا سازشیں نہیں ہوئیں لیکن وہ دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔دنیا تیزی کیساتھ آگے بڑھ رہی ہے جبر استحصال اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں اور اس عمل میں خواتین کا کردار بہت اہم ہے۔ان کا سب سے بڑا ہتھیار ان کی استقامت اور ان کے آنچل ہیں جو پرچم بننے کے بعد خطرناک بن جاتے ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے میڈیا پرسنز کے ٹرائل کے لئے پیکا آرڈیننس کے تحت خصوصی عدالتیں قائم کر د ی ہیں۔ان عدالتوں کے قیام کے بعد سوشل میڈیا بلکہ تمام میڈیا کے خلاف بدترین کریک ڈائون کا امکان ہے حکومت مخالفانہ مواد کی بنیاد پر کسی بھی میڈیا پرسن کے خلاف مقدمات دائر کرسکتی ہے اور خصوصی عدالتیں کسی تاخیر کے بغیر سزائیں سنا سکتی ہیں۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سلسلے کا پہلا مقدمہ پی ٹی آئی کے سوشل ایکٹوسٹ اور پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رئوف حسن کے خلاف چلایا جائے گا۔اسلام آباد میں حکام نے تین روز قبل پارٹی سیکریٹریٹ کو سیل کر کے رئوف حسن کو گرفتار کیا تھا۔تحقیقاتی اداروں کا الزام ہے کہ یہاں پر قائم سوشل میڈیا سیل کے ذریعے ریاست اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔الزام میں غیرملکی ہاتھ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔پیکا عدالتوں اور پنجاب میں ہتک عزت قانون کے نفاذ کے بعد صحافت کی جو بھی واجبی سی آزادی تھی وہ ختم ہو جائیگی البتہ بیرون ممالک مقیم لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہیں گے۔اس عمل کو روکنے کیلئے ٹوئٹر کی طرح فیس بک،انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کو بھی فائروال کے اندر لانے کی تیاری ہو رہی ہے۔اس عمل کے بعد اخبارات پابند ہوں گے کہ وہ صرف سرکار کی خبریں شائع کریں جبکہ لوگ آزادی اظہار کے بنیادی حق کو بھول جائیں گے۔اس عمل کا سارا ڈس کریڈٹ پہلے نمبر پر ن لیگ اور اس کے بعد پیپلزپارٹی کو جائے گا اور یہ جماعتیں ساری عمر اس کا قصاص نہیں دے پائیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں