پرنٹ میڈیا کی آخری رسومات: لاہور میں اجلاس
تحریر: انور ساجدی
مغربی پنجاب کے راجدھانی لاہور میں ایڈیٹروں کی تنظیم سی پی این ای نے اجلاس بلایا ہے۔تنظیم کے زیادہ تر اجلاس لاہور یا اسلام آباد میں منعقد ہوتے ہیں کیونکہ اکثریت کا تعلق وہاں سے ہے۔کراچی اگرچہ مرکزی سیکریٹریٹ ہے یہاں پر عمومی طور پر سالانہ اجلاس کا انعقاد ہوتا ہے۔لاہور کو ریاست پاکستان کے لوگ پاکستان کا دل بھی کہتے ہیں خود لاہور والے بھی اپنے عظیم شہر کی تاریخ ،ترقی اور شان وشوکت پر بہت زیادہ ناز اور فخر محسوس کرتے ہیں۔لاہور نے گزشتہ چالیس سالوں میں بہت ترقی کرلی ہے۔شہبازشریف کے گزشتہ دو ادوار پرویزالٰہی کے دور میں اور اب محترمہ مریم نواز کے دور میں لاہور کے سجنے سنورنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔موجودہ ترقی کی بنیاد مشرف دور میں چوہدری پرویز الٰہی نے رکھی تھی۔انہوں نے کئی انڈرپاسز اوورہیڈ برج تعمیر کئے تھے۔ان کا احسان ہے یا کامران لاشاری کی مہربانی کہ انہوںنے دادا چاکر اعظم کے نام پر ایک انڈرپاس بنایا گو کہ اہل لاہور حیران ہوتے ہوں گے کہ یہ چاکر اعظم کون ہے اور اس کا لاہور میں کیا کام۔بہرحال نام تو رکھ لیا گیا ہے ہو سکتا ہے کہ آئندہ چل کر پنجاب کی کوئی حکومت ان ناموں کو تبدیل کرلے۔ہر چیز کا امکان موجود رہتا ہے۔ ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ لاہور کی اکثریت مشرقی پنجاب اور کشمیر سے تعلق رکھتی ہے۔1947ءمیں جوہجرت ہوئی تھی اس کے نتیجے میں اس شہر میں آبادی کا توازن یکسر بدل گیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات میں لاہور کی تمام نشستوں پر مہاجر امیدوار کامیاب ہوتے ہیں۔ شیرشاہ سوری کے خلاف لڑنے جب میر چاکر خان رندہمایوں کی مدد کو آئے تھے تو ان کے لشکر کا ایک حصہ لاہور میں رہ گیا۔یہ جو لاشاری برادری ہے یہی دراصل لاہور کی آدی واسی یا قدیم ترین آبادی ہے کیونکہ لاہور اکثروبیشتر شمالی حملہ آوروں کا مسکن رہتا تھا۔جو اسے چھوڑ کر واپس چلے جاتے تھے لاہور نے بہت عروج و زوال دیکھے ہیں لیکن اس کے ہمیشہ دو مراکز رہے ہیں ایک شاہی قلعہ اور ایک شاہی محلہ۔دونوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔شاہی قلعہ کے اطراف کو پنجاب کی مختلف حکومتوں نے تزئین وآرائش کر کے دلکش مقام بنا دیا ہے جہاں1940 کی قرارداد کی یادگار بھی شان وشوکت سے کھڑی نظر آتی ہے۔البتہ شاہی محلہ اور اس کا کلچر تقریباً ختم ہوگیا ہے یا شرفا کی آبادیوں میں جا کر بس گیا ہے۔
متحدہ ہندوستان میں پنجاب کا پایہ تخت لاہور تھا۔رنجیت سنگھ کے بعد جب انگریزوں نے اس پر قبضہ کیا تو انہوں نے نئے لاہور کی بنیاد رکھی جو مال روڈ ہے اس زمانے میں اسے ٹھنڈی سڑک بھی کہا جاتا تھا تمام اہم عمارتیں اس کے اردگرد تعمیرشدہ نظر آتی ہیں۔پنجاب اسمبلی ہو،ایچی سن کالج ہو،ہائی کورٹ کی عمارت ہو یا دیگر تاریخی عمارتیں سب کچھ یہیں پر ملتا ہے۔متحدہ ہندوستان میں پنجاب کا جو وزیراعلیٰ تھا اسے وزیراعظم کہا جاتا تھا۔پنجاب کی تقسیم کے بعد ہندوستانی پنجاب نے اپنا کیپٹل چندی گڑھ میں بنایا۔یہ شہر پنجاب کے ساتھ ہریانہ کا دارالحکومت بھی ہے۔ون یونٹ کے دور میں یہ مغربی پاکستان کا ہیڈ کوارٹر تھا جبکہ پنجاب اسمبلی کو مغربی پاکستان اسمبلی کا نام دیا گیا تھا۔اس اسمبلی کا نمایاں نام میر عبدالباقی بلوچ کا تھا جو اپوزیشن لیڈر کا کام کرتے تھے جن کا تعلق کیچ سے تھا اس شہر میں نواب آف کالاباغ یعنی گورنر مغربی پاکستان نے عبدالباقی بلوچ پر قاتلانہ حملہ کروایا تھا۔باقی صاحب تو بچ گئے تھے لیکن ایک صحافی فوت ہوگئے تھے۔یہ شہر رنجیت سنگھ، سرچھوٹو رام بھگت سنگھ،سر سکندر حیات اور خضر حیات کا شہر ہے۔پنجاب کے پہلے کمیونسٹ رہنما میاں افتخار الدین نے لاہور ہی میں پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کی بنیاد رکھی تھی جس کے اخبارات پاکستان ٹائمز ،امروز اور لیل ونہار لوگ بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔مشہور شاعر حبیب جالب نے بھی اپنی زندگی یہیں پر گزاری تھی جبکہ فیض صاحب بھی پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس شہر کے باسی تھے۔لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پی ایف یو جے کے صدر نثار عثمانی نے اسے اپنا مسکن بنایا۔
1967ءمیں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد اسی شہر میں رکھی تھی اور 1971 میں انہوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے ڈھاکہ میں طلب کردہ اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شہر میں قتل ہونے والے نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں بھٹو صاحب پر ایف آئی آر کٹی تھی۔نواب محمد احمد خان احمد رضا قصوری کے والد تھے جو نام کے نواب تھے اور اس کا واحد کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے بھگت سنگھ اور ساتھیوں کے ڈیتھ وارنٹ جاری کئے تھے۔جس کے بعد انگریزوں نے ان پر انعام و اکرام کی بارش کی تھی۔ضیاءالحق نے1977ءمیں بھٹو کا تختہ الٹ کر لاہور پر مظالم کی نئی داستان رقم کی تھی اور بالآخر انہیں پیپلزپارٹی کے خاتمہ میں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ضیاءالحق نے ایسٹ پنجاب کے نوجوان نوازشریف کو اپنا جانشین بنا کر پنجاب شریف خاندان کے حوالے کیا تھا جس کا قبضہ کچھ وقفوں کے بعد جاری وساری ہے۔اگر مقتدرہ کی جماعت نہ ہو تو شریف خاندان کا عروج بھی زوال میں بدل جائے گا کیونکہ گزشتہ سال8فروری کے انتخابات میں لاہور نے مسلم لیگ ن کو مسترد کر دیا تھا لیکن ایک بڑے انجینئرنگ کے بعد ن لیگی امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کیا گیا تھا۔البتہ بدترین شکست کے بعد نوازشریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے سے محروم رہے۔جس طرح 1977ءمیں پیپلزپارٹی کے ساتھ سلوک ہوا تھا اسی طرح کا سلوک تحریک انصاف کے ساتھ جاری ہے حالانکہ تحریک انصاف بھی مقتدرہ کی جماعت ہے۔وہ ناراض ضرور ہے لیکن اس کی خوشنودی حاصل کرنے کےلئے طرح طرح کے جتن کر رہی ہے۔پارٹی کے بانی عمران خان اڈیالہ جیل سے روز پیغامات بھیجتے ہیں کہ ان کے ساتھ صلہ رحمی کا سلوک کیا جائے لیکن فی الحال کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے۔
ایڈیٹروں کی تنظیم سی پی این ای کا جمعرات کا لاہور میں جو اجلاس ہو رہا ہے اس کا بڑا موضوع آزادی صحافت یا اظہار رائے کو درپیش نامساعد حالات ہیں۔اس وقت اخباری مالکان کی تنظیم اے پی این ایس اور ایڈیٹروں کی تنظیم سی پی این ای پر کارپوریٹ اخبارات کا غلبہ ہے۔ان میںشامل چھوٹے یا علاقائی اخبارات کو درخوراعتنا نہیں سمجھا جاتا۔یہی وجہ ہے کہ2018 سے اب تک پرنٹ میڈیا عالم نزع میں ہے۔عمران خان نے اوپر سے مشورہ کر کے فیصلہ کیا تھا کہ اخبارات کا وجود ختم کیا جائے لیکن وہ اپنے دور میں کامیاب نہ ہوسکے تھے تاہم موجودہ حکومت کے دور میں حکام بالا کافی حد تک کامیاب نظر آ رہے ہیں۔عمران خان نے اطلاعات کے بجٹ میں تبدیلی کر کے پرنٹ میڈیا کا حصہ25فیصد رکھا تھا جبکہ باقی بجٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے لئے مختص کر دیا تھا۔عمران خان نے اپنی کی بورڈ آرمی بنا دی تھی جس کے تحت صرف پختونخواہ میں سینکڑوں لوگوں کو بھرتی کیا گیا تھا یہی آرمی اس وقت عمران خان کی جنگ لڑ رہی ہے جن لوگوں کی پشت پناہی کی گئی تھی ان کی اکثریت بیرون ملک فرار ہوگئی ہے جہاں سے وہ حکومت کا ناطقہ بند کئے ہوئے ہیں ان کی روک تھام کے لئے حکومت کو لاکھوں جتن کرنا پڑ رہے ہیں حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر پابندی تک کے امکانات پر غور کیا جا رہا ہے۔سوشل میڈیا پر قدغن کے لئے پیکا آرڈیننس جاری کیا گیا اور پنجاب حکومت نے ہتک عزت کا قانون منظور کیا تھا لیکن پھر بھی سوشل میڈیا کنٹرول میں نہیں آ رہا ہے۔اس کے باوجود کہ سوشل میڈیا کے غلبہ کے بعد پرنٹ میڈیا اپنی اہمیت اور وقعت کھو بیٹھا ہے اس کے باوجود حکومت بضد ہے کہ اس کا تمت باالخیر کیا جائے۔ واحد حکومت پنجاب کی ہے جہاں منظور نظر پرنٹ میڈیا کی خوب خاطر تواضع کی جا رہی ہے اور انعام و اکرام کی بارش کی جا رہی ہے۔عجیب بات ہے کہ مرکز میں چاچو کی حکومت پرنٹ میڈیا کے قتل کے درپے ہے جبکہ پنجاب میں بھتیجی کی بالکل جداپالیسی ہے۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ سوشل میڈیا کے ”فنانما“ کے بعد پرنٹ میڈیا موجودہ طریقہ سے نہیں چل سکتا۔کارپوریٹ اخبارات جو ہیں انہیں آزادی صحافت یا دیگر اصولوں سے کوئی سروکارنہیں ہے۔وہ صرف بزنس یا آمدنی کو دیکھتے ہیں۔مثال کے طورپر موجودہ دور میں جن چیزوں کی اشاعت پر حکومت نے زبانی کلامی پابندی عائد کر رکھی ہے تمام کارپوریٹ میڈیا من وعن اس پر عمل کر رہی ہے۔اپوزیشن جو کہ صرف تحریک انصاف پر مبنی ہے اسے سخت تنقید اور پروپیگنڈا کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔پیکا ایکٹ کو بھی میڈیا نے زبانی اعتراض کے علاوہ قبول کرلیا ہے۔المیہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے 90فیصد تشہیری بجٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے لئے مختص کر دیا ہے جبکہ صرف10فیصد حصہ پرنٹ میڈیا کے لئے رکھ دیا ہے۔بھلا اتنے کم حصے میں پرنٹ میڈیا کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔حکومت تو چاہتی ہے کہ یہ زندہ نہ رہے۔اب جو چھوٹے اور علاقائی اخبارات ہیں وہ اپنے آپ کو کیسے زندہ رکھتے ہیں۔یہی بنیادی معاملہ ہے۔ حکومتی خبروں کی اشاعت کی وجہ سے ان کی سرکولیشن بھی کم ہو رہی ہے اور اشتہارات بھی برائے نام رہ گئے ہیں لہٰذا تنظیموں کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ وہ حکومت پر دباﺅ ڈالے کہ وہ پرنٹ میڈیا پر سنسرشپ ہٹا لے۔بے شک وہ اشتہارات کا اجراءبند کر دے اسی دوران اخبارات ایسا مواد لائیں یا ایسی تحقیقاتی خبریں شائع کریں جو عوام کی دلچسپی کے باعث ہوں۔اکثر سرکاری خبروں کو جگہ نہ دی جائے تو دیگر خبروں کے لئے کافی جگہ موجود ہوگی ۔وفاقی حکومت تو دھیرے دھیرے پرنٹ میڈیا کے خاتمہ کی طرف گامزن ہے لیکن بلوچستان حکومت کو بہت عجلت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک سمری تیار کی گئی ہے اگر اس کی منظوری ہوگئی تو سرکاری اشتہارات حکومتی ویب سائٹس پر جاری کئے جائیں گے جبکہ علاقائی یا بلوچستان کے اخبارات کو محروم کر دیا جائے گا۔البتہ دیگر صوبوں کے اخبارات کوحسب ضرورت کسی نہ کسی بہانے سے اشتہارات جاری ہوتے رہیں گے اگر حکومت یہ فیصلہ کرلے تو اسے چاہیے کہ وہ پرنٹ میڈیا کو اپنے حال پر چھوڑ دے۔بے شک اسے اشتہارات جاری نہ کرے لیکن اپنی خبروں کی اشاعت پر بھی مجبور نہ کرے۔اگر پرنٹ میڈیا نے مرنا ہے تو اپنے تئیں مرے۔حکومت اس میں دخل اندازی نہ کرے۔
اس وقت بلوچستان کے اخبارات محکمہ اطلاعات کے خبرنامہ اور وزراءکی خبروں پر مشتمل ہیں بھلا یہ کیا اخبارات ہوئے جس دن اخبارات نے آزادانہ خبروں کی اشاعت شروع کر دی اور حکومتی کمزوری اور بیوروکریسی کے کرتوتوں کو اجاگر کرنا شروع کر دیا وہ واقعی ایک تبدیلی ہوگی۔البتہ پرنٹ میڈیا کو بچانے کے لئے سیاسی کارکنوں اور عوام کو کردار ادا کرنا ہوگا۔


