ایک اور خونی جنگ

تحریر: انور ساجدی
8 فروری کے عام انتخابات کے بعد جو لڑائی شروع ہوئی تھی وہ اب خونی جنگ میں بدل رہی ہے ہر طرف جنگ ہی جنگ خلفشار اور انتشار دکھائی دیتا ہے۔نتائج کی تبدیلی کے بعد جو حکومت بنائی گئی وہ اسے ہر محاذ پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس کا واحد کارنامہ آئی ایم ایف سے ممکنہ ڈیل ہے جس کے بعد قرضوں کے دروازے کھل جائیں گے۔اس قرضہ کے حصول کے لئے25 کروڑ عوام کو جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے۔آئی پی پی ایز کے قاتل سیٹھوں کو ادائیگی کے لئے بجلی کے نرخ اتنے بڑھا دئیے گئے ہیں کہ بجلی کا استعمال ناممکن ہوگیا ہے ملک کو25 ہزار میگا واٹ کی ضرورت ہے مگر سوا لاکھ میگاواٹ کی قیمت عوام سے وصول کی جا رہی ہے تاکہ آئی پی پی ایز کو کیپسٹی ادائیگیاں کی جا سکیں۔یہ ایسی کھائی ہے کہ اس سے2030 تک نکلنا ناممکن ہے۔وزیراعظم روز نت نئے دعوے کرتے ہیں لیکن وہ اختیارات سے عاری فیصلہ کی قوت سے محروم اور ڈکٹیشن کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ہر ادارہ بے سمت چل رہا ہے مثال کے طور پر سنی اتحاد کونسل نے درخواست دائر کی تھی کہ مخصوص نشستیں اسے الاٹ کی جائیں لیکن سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں حالانکہ وہ سرے سے درخواست گزار ہی نہیں تھی اس فیصلہ میں بہت سقم ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ یہ انصاف کے بجائے جانب داری پر مشتمل ہے۔
بجائے کہ حکومت نظرثانی اپیل پر جاتی اسے اتنا غصہ آیا اور وہ اس حد تک آپے سے باہر ہوگئی کہ اس نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا اعلان کر دیا۔اس فیصلہ کو کسی حلقے نے بھی نہیں سراہا بلکہ اسے جذباتی قرار دے دیا۔بھلا جس جماعت کو سپریم کورٹ نے پارلیمانی پارٹی قرار دیا ہو آپ اس پر کیسے پابندی عائد کرسکتے ہیں۔ابتدائی خبروں میں کہا گیا تھا کہ ن لیگ کے تین بڑے یعنی سپریم لیڈر نوازشریف ان کی جانشیں اور پنجاب کی حاکم اعلیٰ محترمہ مریم اور وزیراعظم شہبازشریف تین دن تک مری کے اپنے محل میں سر جوڑ کر بیٹھے اورطویل مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ بہ حیثیت پارٹی تحریک انصاف پر پابندی لگا کر اسے نیست و نابود کر دیا جائے یہ فیصلہ بذات خود چغلی کھاتا ہے کہ یہ شریف خاندان کی سوچ و بچار کا نتیجہ ہے۔گمان یہی ہے کہ فیصلہ کہیں اور ہوا ہے اور ن لیگی حکومت سے کہہ دیا گیا کہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا بنایا جائے۔وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے اپنے اعلان میں یہ بھی کہا کہ سابق صدر عارف علوی سابق وزیراعظم عمران خان اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر آئین کی دفعہ6 کے تحت آئین شکنی اور غداری کا مقدمہ بھی قائم کیا جائے گا۔یہ بات درست ہے کہ عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے تحریک انصاف کے زعماءنے آئین سے ماوریٰ فیصلہ کیا تھا لیکن اسے عدالت میں ثابت کرنا مشکل ہے کیونکہ اس وقت عدلیہ حکومت کے حق میں نہیں ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ دو بڑے آئینی اداروں کے درمیان شدید ٹکراﺅ ہے۔عمران خان کو ریلیف پر ریلیف مل رہا ہے اس کے بیشتر مقدمات عدلیہ نے ختم کر دئیے ہیں بلکہ ان کی رہائی کا حکم بھی جاری کر دیا ہے اگر عدلیہ کے فیصلوں کی حکم عدولی غداری ہے تو پی ٹی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت نے بھی90 روز میں انتخابات کروانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی دھجیاں اڑا دی تھیں کیا اس کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ چلے گا۔تحریک انصاف کے خلاف غداری کا الزام ایک سیاسی شوشے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ حکومت بہت کمزور ہے خاص طور پر مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد حکمران اتحاد کی دو تہائی اکثریت ختم ہو چکی ہے اور اس کی سادہ اکثریت کو بھی خطرہ لاحق ہے۔اسی لئے اندرون خانہ تحریک انصاف کے اراکین کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اگر جماعت کے کچھ اراکین نہ ٹوٹے تو حکومت کا چلنا مشکل ہوجائے گا۔عالمی ادارہ”فچ“ نے تو یہ پیشن گوئی کی ہے کہ شہبازحکومت آئندہ ڈیڑھ سال تک چلے گی لیکن فچ کی یہ پیشن گوئی یقینی نہیں ہے کیونکہ یہ مدت زیادہ ہے جس دن زرداری سر نے پینترا بدلا یا انہیں ایسا کرنے کے لئے کہہ دیا گیا تو یہ حکومت اسی دن زمین بوس ہو جائے گی۔لگتا یہی ہے کہ زرداری آج کل ایک قدم بھی پوچھے بغیر نہیں اٹھاتے وہ حکومت گرانے کا کام اس لئے کریں گے کہ آئندہ باری انہیں مل جائے لیکن یہ باریوں کا وقت نہیں ہے۔اگر زبردستی شہباز حکومت کو برقرار رکھا گیا تو حالات بہت زیادہ حد تک دگردوں ہو جائیں گے کیونکہ شہبازشریف ثابت کرچکے ہیں کہ وہ اہم فیصلے بروقت کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں ان لیگ کے سپریم لیڈر تھک چکے ہیں اور وہ دوبارہ فعال کردار ادا کرنے حتیٰ کہ وزیراعظم بننے کے لائق بھی نہیں ہیں۔اگر انہیں چھوٹے بھائی کی جگہ موقع دیا گیا تو مزید تباہی آئے گی جہاں تک مریم بی بی کا تعلق ہے تو وہ زمینی حقائق کا ادراک نہیں رکھتیں اگر رکھتیں تو صدر زرداری کی لاہور آمد کے موقع پر ان کے خیرمقدم سے انکار نہ کرتیں حالانکہ ان کے چاچو کی حکومت صرف اور صرف پیپلزپارٹی کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔آخرانہیں کس بات کا زعم ہے خود ان کی اپنی حکومت کو بھی اکثریت حاصل نہیں ہے۔
اگر مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو الاٹ کر دی گئیں تو ن لیگ کی سٹی گم ہو جائے گی۔مریم بی بی یہ سمجھتی ہیں کہ یہ1990 کا دور ہے جب ان کے والد محترم وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وزیراعظم بے نظیر کے خیرمقدم سے گریزاں رہتے تھے انہیں ادراک ہونا چاہیے کہ وقت بدل چکا ہے تمام سیاسی جماعتیں اپنی وقعت کھوچکی ہیں تمام سیاسی لیڈر محض گماشتے کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں اگر کل عمران خان سے صلح ہو جائے اور انہیں حکومت سازی کا موقع دیا جائے تو وہ بھی وہی کردار ادا کریں گے جو انہوں نے سرباجوہ کے دور میں ادا کیا تھا۔وہ کوئی انقلابی لیڈر نہیں کہ پورے ملک میں تبدیلی لا کر سب کچھ بدل ڈالیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ عمران خان کے خلاف ناانصافی زیادتی اور انتقام کا جو پروپیگنڈا ہو رہا ہے اس نے خیبرپختونخواہ کے عوام کے جذبات بھڑکا دئیے ہیں بلکہ اس کے اثرات سرحد پار بھی دیکھے جا سکتے ہیں اس کے باوجود کہ صوبہ پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور پارٹی کا ایک بانکا علی امین گنڈاپور وزیراعلیٰ ہیں لیکن صوبہ کے معاملات ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔
2008 کے بعد وہاں پر انتہائی سنگین صورتحال ہے جنوبی اضلاع پر عملاً طالبان کا قبضہ ہے اور انہیں نکالنے کے لئے لاکھوں جتن کرنے پڑیں گے۔بنوں کینٹ پر حملہ اور دیگر واقعات کا ذمہ دار ٹی ٹی پی کو قرار دے کر افغان حکومت سے احتجاج کیا گیا ہے کچھ عرصہ قبل نحیف و نزار وزیر دفاع خواجہ آصف نے دھمکی دی تھی کہ اگر افغان سرزمین سے مداخلت اور حملے بند نہ ہوئے تو ہم افغانستان کے اندر گھس کر حملے کریں گے یہ کوئی عاقلانہ بیان نہیں تھا اس کے بعد سے کئی درجن حملے ہوچکے ہیں اوپر سے انقلابی قوم پرست شاعرگلہ من کے اسلام آباد میں قتل نے بہت گہرے زخم لگائے ہیں۔افغانستان میں کئی مقام پر مرحوم کا غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی اور شدید جذبات کا اظہار کیا گیا جن لوگوں نے گلہ من کی جان لی انہیں ان کی پراثر شخصیت کا اندازہ نہیں تھا کراچی میں پشتون دانشور منان باچا نے بھی سہراب گوٹھ میں غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان کا انقلاب ثور استاد خیبر کے قتل کے بعد آیا تھا۔یہ جو خلفشار ،انتشار اور سراسیمگی ہے یہ اصل میں خانہ جنگی کی ایک شکل ہے۔حکمرانوں کا خیال ہے کہ وہ طاقت کے استعمال سے اس پر قابو پا لیں گے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ فاٹا اور پختونخواہ کے جنوبی اضلاع میں کئی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور کوئی مرزا علی بھی پیدا ہوسکتا ہے جس کا کوئی جنونی اعلان مسئلہ کو مزید گھمبیر بنا دے گا۔لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ پختونخواہ اور افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے اگر یہ ممکن نہ ہو تونئے انتخابات کا اعلان کیا جائے تاکہ ایک مستحکم اور نمائندہ حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوسکے۔ایک ایسی حکومت جس پر مینڈیٹ چوری کا الزام ہو وہ ان گھمبیر مسائل کو کیسے حل کر سکتی ہے۔اس کا انتخابات کے سوا کوئی اور حل نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں