اور اب عمرانی طالبان

تحریر: انور ساجدی
موجودہ ڈیجیٹل دور میں جب آرٹیفیشل انٹیلی جنس انسانوں کی جگہ لے رہا ہے ہمارے حکمران جھوٹ بول کر اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کے روزانہ کے بیانات خطبات اور تقاریر سننے دن دہاڑے ان کے دعوے جھوٹے نعرے اور خوش گمانی پر مبنی مژدہ جان فزا انہی کا اپنا ہی مذاق اڑاتے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہائی برڈ اور کاسمیٹک حکمران کسی اور دنیا سے تعلق رکھتے ہیں جو زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہیں۔ان کا کوئی وژن اور وجدان نہیں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ محض وقت گزاری مزید لوٹ مار اور اپنی ریاست کو تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔صرف حکمرانوں پر موقوف نہیں جو بھی اپوزیشن ہے اس کے کرتا دھرتائوں کا بھی یہی حال ہے یعنی ایک ایسا گروہ ریاست پر قابض ہے جو پرلے درجے کا قدامت پسند دائیں بازو کے بدبودار نظام کا علم بردار ہے۔
اندازہ لگائیے کہ پاکستان کاغذ کی حد تک ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے لیکن اس پر قابض لوگ اپنے آئین کو نہیں مانتے۔اس آئین کو منسوخ کر کے ضیاء الحق نے دنیا کا انوکھا شرعی نظام نافذ کیا تھا جس کے تحت سیاسی مخالفین کو بلاوجہ کوڑے مارے جاتے تھے حالانکہ ضیاء الحق کا حلیہ شرعی نہیں تھا نہ داڑھی نہ مونچھ لیکن وہ اسی نظام کے نام پر 11برس تک اقتدار پر قابض رہے۔ان کے جانشین پرویز مشرف تو باقاعدہ کہتے تھے کہ وہ سیکولر انسان ہیں۔وہ ہررات رندروں کی محافل برپا کرتے تھے کلاسیکل گانے بے سرے انداز میں گاتے تھے اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے اسے ڈانس کا نام دیتے تھے۔انہوں نے روشن خیالی کا نعرہ بھی لگایا تھا ان کے ارد گرد خواتین کا جھمگٹا بھی لگا رہتا تھا۔اس کے باوجود ذہنی طور پر وہ انتہائی رجعت پسند واقع ہوئے تھے ایک مرتبہ ایڈیٹروں سے ملاقات کے دوران انہوں نے فرمایا کہ پاکستان میں کبھی مغربی جمہوریت رائج نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے۔اس کے نظام میں ہمیشہ اسلام کی آمیزش شامل رہے گی۔یہ بھی کہا کہ پاکستان کا نظام فوج کی مداخلت کے بغیر نہیں چل سکتا۔اس لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فوج کا کردار رہے گا۔جب فوج 1990 میں نوازشریف کو زبردستی اقتدار میں لائی تو بے نظیر نے انہیں مولانا کا خطاب دیا تھا اور کہا تھا کہ داڑھی نہ ہونے کے باوجود وہ اندر سے ایک مکمل مولوی ہیں اور روشن خیالی کے مخالف ہیں۔ اس زمانے میں نوازشریف اپنے مینٹور اور گروضیاء الحق کے جانشین اور پیروکار سمجھے جاتے تھے۔رفتہ رفتہ جب نوازشریف نے حالات سے کچھ سیکھا تو انہوں نے اپنے آپ کو سیکولر ظاہر کرنا شروع کر دیا۔بات دین یا مذہب کی نہیں بلکہ سوچ کی ہے۔یہ لوگ ازکار رفتہ نظریات،طاغوتی طاقتوں کے آلہ کار انتہائی عوام دشمن مزدور کش اور انسانیت اور مساوات کے مخالفین ہیں۔عمران خان کو لیجیے وہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے ہیں بے شک انہوں نے امتحان گریڈ سی میں پاس کیا ہے لیکن رہے تو لندن میں ہیں۔انہوں نے اسپورٹس اسٹار کی حیثیت سے ایک پلے بوائے کی زندگی گزاری لیکن سیاست میں آنے کے بعد وہ ریاست مدینہ کے علم بردار بن گئے۔عمران خان کے سیاسی مخالف مجیب الرحمن شامی اس لئے انہیں نو مسلم قرار دیتے ہیں یعنی وہ اپنے ماضی سے مکمل طور پر تائب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے نوجوانی میں ایک کتاب بھی لکھی تھی جس میں انہوں نے پاکستان میں شرعی حدود کے نفاذ،جرگہ سسٹم اور قرون اولی کی سزائوں کی وکالت کی تھی۔بعد ازاں جب انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے نادانی میں کچھ غلط کیا ہے اس احساس کے بعد انہوں نے پرانی کتاب ختم کر دی اور اس کی جگہ ’’میرا پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک نئی کتاب لکھی تاکہ مغرب کے لئے قبولیت پیدا ہوسکے لیکن اندر سے ان کی داڑھی صاف نظر آتی ہے۔وہ گئے گزرے قسم کے قدامت پسند ہیں اسی طرح مولانا فضل الرحمن ایک بڑے پایہ کے لیڈر ہیں لیکن27 سال سے ان کی قیادت کے دوران یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟۔ایک طرف ان کے مدارس میں جہاد کا درس دیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر انہوں نے کبھی جہاد میں حصہ نہیں لیا۔جب بھی طالبان برسراقتدار آتے ہیں تو مولانا کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ان پر گزشتہ چند سالوں میں ہولناک حملے ہوچکے ہیں۔حال ہی میں مولانا کی پارٹی کے ایک عہدیدار فاٹا میں نامعلوم افراد کے حملہ میں جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ایک اور رہنما دو روز قبل بال بال بچے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر مولانا طالبان کے حامی ہیں اور افغانستان میں ان کی رجیم کی وکالت کرتے ہیں تو ان کی جان لینے کی کوشش کون کر رہاہے؟۔یقیناً مولانا نے ان واقعات کی تحقیقات کی ہوگی لیکن وہ حملہ آوروں کی نشاندہی سے گریز کرتے ہیں۔
مشرف کے دور میں ایم ایم اے کے تحت پختونخوا میں مولانا کی حکومت تھی لیکن انہوں نے صوبائی سطح پر چند سطحی اقدامات کے سوا شرعی قوانین نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی حتیٰ کہ صوفی محمد نے اپنی فورس کے ذریعے سوات پر قبضہ کر لیا جس کے بعد ملا فضل اللہ نے اپنی حکومت قائم کی۔ان کی حکومت ایک خچر پر قائم ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے چل رہی تھی۔ایم ایم اے نے کوئی کارروائی نہیں کی۔تاوقتیکہ ایم ایم اے کے خاتمہ کے بعد سوات میں ایک بڑا فوجی آپریشن کرناپڑا۔چند روز قبل مولانا نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پختونخواہ کے جنوبی اضلاع میں حکومت کی رٹ ختم ہوچکی ہے رات10بجے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے جان بچانے کی خاطر اپنے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان اضلاع میں امارت اسلامیہ بنتے دیکھ رہے ہیں چونکہ مولانا کا پورا خطاب رپورٹ نہیں ہوا اس لئے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ دراصل کہنا کیا چاہتے ہیں۔بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی اضلاع میں جو مسلح جتھے سرگرم عمل ہیں وہ خود کو عمرانی طالبان کہتے ہیں یعنی پہلے پاکستانی طالبان تھے افغانی طالبان تھے اب یہ عمرانی طالبان کہاں سے آگئے اور ان کا مقصد کیا ہے؟۔یا یہ وہ لوگ ہیں جو عمران خان کے خلاف سرکاری سلوک سے نالاں ہیں یا یہ عمران خان کے مسلح سیاسی پیروکار ہیں۔اس وقت تقریباً پختون قوم کے متفقہ لیڈر خان صاحب ہیں ان کے پیروکار نہ صرف پاکستان میں ہیں بلکہ افغانستان میں بھی ان کی کافی حمایت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محمود خان نے عمران خان کے خودساختہ نائب بننے کا فیصلہ کیا۔اسی دوران عوامی موڈ دیکھ کر محمود خان نے طالبان حکومت کا دفاع بھی شروع کر دیااس طرح محمود خان کی سیاسی تحریک افغان بھگوڑے واپس جائو سے طالبان کی حمایت تک پہنچ گئی۔نہ جانے اس سے آگے کیا ہوگا؟۔ہاں یہ ضرور ہے کہ عمران خان رولنگ ایلیٹ کے حلق میں پھنس گئے ہیں۔حکمران رات کی تاریکی میں ان سے مذاکرات کرتے ہیں اور دن کے اجالے میں پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ حالیہ اقدامات کا مقصد انہیں نئے آپریشن کی حمایت میں مجبور کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے دو قدم پیچھے ہٹ کر اے پی سی میں شرکت پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔نہ جانے یہ آنکھ مچولی کب تک جاری رہے گی اور اداروں کے درمیان کبمناقشہ ختم ہوگا۔حالانکہ ریاست شدید قسم کے بحرانوں کا شکار ہے۔وزیراعظم روز کہتے ہیں کہ ایسا کریں تو اربوں ڈالر آئیں گے ویسا کریں تو کھربوں آئیں گے۔ان کے حالیہ بجٹ نے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے۔دو نمبر جعلی اشرافیہ اورسرمایہ داروں کو بڑے پیمانے پر ریلیف دے دیا گیا ہے جبکہ عوام کی کمر توڑدی گئی ہے۔وزیراعظم نے گزشتہ روز فرمایا کہ پاکستان اپنے پورٹس کے ذریعے اربوں ڈالر کما سکتا ہے اور وسط ایشیاء کے ممالک کو ملا سکتا ہے۔جناب وزیراعظم کو معلوم نہیں کہ بیچ میں افغانستان حائل ہے اور گوادر تک کسی بھی جگہ امن وامان نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔کبھی روس سے بارٹر ٹریڈ کی بات کرتے ہیں کبھی دیگر ممالک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید سناتے ہیں۔اب تو لوگوں کا پکا یقین ہو چکا ہے کہ اس طرح کے اعلانات خیالی پلائو ہیں اور ہمارے حکمران شیخ چلی جیسے خواب عوام کو سنا کر ان کا دل بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔رجعت پسند اور قدامت پسند رہنمائوں کی موجودگی میں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی جو پارٹی حال ہی میں بنی ہے وہ بھی اسی طرح کا گروہ ہے جس کا مقصد بہ وقت ضرورت استعمال میں لانا ہے۔شاہد خاقان ائیربلیو کے مالک ہیں اور ان کی آمدنی کھربوں میں ہے۔مفتاح اسماعیل بھی بہت بڑے سیٹھ ہیں یہ لوگ خواص کے نمائندہ ہیں اور انہوں نے عوام کے لئے کچھ نہیں کرنا۔نام نہاد اشرافیہ نے اسٹیٹس کو برقراررکھنے کے لئے عوام کو مزید دبانے کا فیصلہ کیا ہے۔ہو سکتا ہے کہ کسی وقت پریشر ککر پھٹ جائے اور کوئی عام آدمی عوام کی رہنمائی کے لئے باہر نکلے کیونکہ زیادتیوں کی انتہا ہوگئی ہے اور مزید زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں