امریکی صحافی ڈینئل پرل قتل کیس

اداریہ
امریکی صحافی ڈینئل پرل کو کراچی سے اغواء کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اور اس کی لاش احسن آباد میں واقع ایک معروف دارالعلوم کے قریب جھاڑیوں سے ملی تھی۔مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلا سماعت سنٹرل جیل میں ہوئی اور فیصلہ 15جولائی2002کو سنایا گیا تھا عدالت نے پاکستانی و برطانوی نژاد شہری عمر سعیدشیخ کو سزائے موت اسپیشل برانچ کے سپاہی عادل شیخ سلمان ثاقب اور فہد نسیم کو عمر قید کی سزائیں سنائیں۔ملزمان نے سزاؤں کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کیں، اپیلوں کا فیصلہ 18سال بعد سنایا عمر سعید شیخ کی سزا ئے موت کو 7سال قید میں بدل دیااور باقی تینوں ملزموں کو بری کر دیا۔سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف امریکا نے فوری اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلزنے اپنے رد عمل میں کہا ہے ڈینئل پرل کیس کے بارے میں فیصلہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی توہین ہے۔مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔اس ردِ عمل پر نہ صرف حکومت نے ملزمان کو تین ماہ کے لئے نظر بند کر دیا ہے بلکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی ٹائمنگ پر حیرانی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس وقت فیصلے سے پاکستان کی قیامِ امن کی کوششوں پر سوال اٹھ گیا ہے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہے۔وزیر خارجہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عدالتیں فیصلہ ملکی قوانین کی روشنی میں استغاثہ کی جانب سے فراہم کردہ شواہد اور ثبوت کی جانچ پڑتال کے بعد دیتی ہیں۔انہیں ملکی یا بین الاقوامی سیاست اور دیگر معاملات سے کوئی غرض نہیں۔بلاشبہ فریقین کو اپیل کا حق حاصل ہے۔ملزمان کو ان کی توقع سے زیادہ ریلیف ملا ہے اس لئے وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کریں گے۔چنانچہ ریاست ہی اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گی۔امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے وزیر خارجہ شاہ محمود کے اپیل دائر کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے امریکی صحافی ڈینئل پرل قتل کے تمام ملزمان کی سزائیں ختم کرنا دہشت گردی کو بڑھاوا دینا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ اپنے مقتول شہری کے ساتھ کھڑی ہیں۔ان کی ہمدردی فطری طور پر مقتول کے ساتھ ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے تمام انصاف پسند شہری بھی دہشت گردی کا شکار ہونے والے صحافی کے قاتلوں سے کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں رکھتے۔ریاست کے پاس اپیل کا حق ہے اپیل میں امکان ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ بحال ہوجائے گا۔استغاثہ کی جانب سے کمزور شواہد پیش کئے جانے پر بھی بحث ہو گی۔ڈینئل پرل کا بہیمانہ قتل ہر لحاظ سے قابلِ مذمت اقدام تھا۔ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔صحافی اگر غیر ملکی ہو تو قاتلوں کے خلاف پائی جانے والی ناراضگی دو چند ہو جاتی ہے۔لیکن دوسری جانب ایسے عدالتی نظام پر بھی ایک سے زائد سوال اٹھتے ہیں۔پہلا سوال یہ کہ اپیل کا فیصلہ سنانے معززہائی کورٹ نے 18سال کیوں لگائے۔ فوری فیصلہ سنانا چاہیے تھا۔اگر تین ملزمان کو دی جانے والی عمر قید قانونی اعتبار سے درست نہیں تھی تو ملزمان فوری رہائی کے مستحق تھے۔انہیں ایک سیکنڈ بھی جیل میں قید رکھنا ناانصافی کے مترادف ہے اور اگر وہ مجرم تھے تب بھی ان کی عمر قید چار سال پہلے پوری ہو چکی تھی انہیں رہانہ کرنا ظلم اور ناانصافی کی بڑی مثال ہے۔اب بھی جیسے ہی ریاست سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے معزز عدالت کو چاہیے کہ عمر قید کی سزا والے تینوں ملزمان (سپاہی عادل شیخ، سلمان ثاقب اور فہد نسیم)کو فوری طور پررہا کردے۔صرف ایک مجرم عمر سعید شیخ جسے سزائے موت کی سزا سنائی گئی اسے جیل میں رکھا جائے۔باقی ملزمان کے خلاف دوسرے مقدمات دائر ہوں تب بھی جیل میں گزاری ہوئی مدت میں وہ بہت پہلے سزا مکمل کر چکے ہیں۔یہ سراسر ناانصافی ہے کہ 14سال سزا ئے قید والا مجرم 20سال کے بعد بھی رہا نہ کیا جائے۔امریکی جاسوس اور دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس نے دو نوجوانوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا تھا اس کی قتل کرنے کی گولیاں برسانے کی ویڈیو بھی عدالت کے ریکارڈ پر موجود ہے،دیت کا قانون استعمال کرکے امریکا بھیجا جا سکتا ہے تو یہی قانون امریکی مقتول کے قاتلوں پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔قانون کی نظر میں قتل کے تمام مجرم ایک جیسے ہونے چاہئیں۔ اس قانونی سقم کو دور کرنے کے لئے معزز عدالت ہدایت جاری کرے۔یہ قانون بھی بنایا اور نافذ کیا جائے کہ کسی ملزم کو جس الزام میں گرفتار کیا جائے اگر دوران ِسماعت(اس جرم کی مدت پوری ہو جائے)اور عدالتی فیصلہ نہ سنایا جائے تب بھی ملزم کو رہا کیا جائے رہا کرنے کا اختیار جیل سپرنٹنڈنٹ کو تفویض کیا جائے۔ تاکہ کسی شخص کو متعلقہ جرم کی سزا پوری ہونے کے بعد ایک منٹ کے لئے بھی جیل میں بند نہ رکھا جا سکے۔عدالتیں اگر انتظامی مسائل کا شکار ہیں تو اس کی سزا ملزمان کو نہ دی جائے۔ججز کی تعداد کم ہے تو اس کمی کے ذمہ دارانڈر ٹرائل قیدی نہیں۔انصاف کے تقاضے پورے کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں