آئی ایم ایف اور عالمی ادا رہ صحت کا اعتراف

آج کا اداریہ
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیناجورجیوااور عالمی ادارہئ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈھانوم نے کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا شدہ صورتِ حال پر غور کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں تسلیم کیا گیاہے کہ دنیا کو اس وقت تاریخ کے بدترین بحران کا سامنا ہے دنیا اب کساد بازاری کے دور میں داخل ہو گئی ہے یہ عالمی مالیاتی بحران سے زیادہ بدتر صورت حال ہے۔اس سے نکلنے کے لئے مشترکہ اقدامات کرنے ہوں گے۔سب سے پہلی ترجیح انسانی زندگیوں کو بچانا ہے اور دوسری ترجیح 4ارب افرادکی کفالت کے لئے روزگار سے محروم ہونے والے افراد کے روزگار کا تحفظ کرنا ہے جس نے عالمی معیشت کو تعطل کا شکار کر دیا ہے کورونا وائرس کے پھیلاؤکو روکنے سے ہی روزگار کا تحفظ ممکن ہوگا۔ عالمی ادارہئ صحت انسانی زندگیوں کو بچانے کے لئے کردار ادا کرے گا جبکہ آئی ایم ایف عالمی معیشت کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا۔دونوں رہنماؤں نے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے پالیسی سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ بیک وقت انسانی زندگیوں کو بچانے اور روزگار کے تحفظ کے لئے اپنی کو ششوں کو جاری رکھیں۔عالمی برادری مطلوبہ فنڈنگ کا اہتمام کرنے کے لئے جلد ہی اہم اقدامات کی منظوری دے گی۔اس مقصد کے لئے 93سے زائد ضرورت مند ممالک کا ایمرجنسی رسپانس فنڈنگ 50ارب ڈالر سے بڑھا کر 100ارب ڈالر کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔یہ رقم اس ایک ہزار ارب ڈلر کی مجموعی فنڈنگ کا حصہ ہے جو 2025تک مرحلہ وارترجیحات کے تحت رکن ممالک کو جاری کئے جائیں گے۔آئی ایم ایف کی سربراہ نے کہا کہ پہلی مرتبہ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ آئی ایم ایف اور ڈبلیو ایچ او بیک وقت محاصرے کی کیفیت میں ہیں۔عالمی ادارہئ صحت کے سربراہ نے کہا ہے کہ کوئی ملک لاک ڈاؤن ہٹانے میں جلدی نہ کرے۔لاک ڈاؤن ہٹانے سے کورونا وائرس دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے خبردار کیا ہے کہ کورونا کے بعد آنے والی وبائیں کہیں زیادہ ہلاکت خیز ہو سکتی ہیں۔یاد رہے کہ بل گیٹس نے 2015میں بھی ایک عالمی وبا کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا:
”دنیا اگلی وبا کے لئے تیار نہیں“۔
ایسی پیش گوئی بل گیٹس جیسی شخصیت ہی کر سکتی ہے۔وہ کاروباری ذہنیت کو بڑی باریک بینی سے دیکھ چکے ہیں مائیکرو سافٹ نے انہیں کاروباری ذہنیت کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع فراہم کیااور انہوں نے اپنی خداداد ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 2015میں مذکورہ بالا پیش گوئی کی تھی۔وہ آج بھی پوری دنیا کو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر دوسروں کی زندگیوں کی قیمت پر منافع کمانے کی پرانی روش جاری رکھی تو کورونا وائرس سے زیادہ ہلاکت خیز وباؤں کے لئے تیار رہو۔آج پاکستان سمیت ہر ملک زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی دھن میں غرق ہے۔اس کا اندازہ لگانے کے لئے صرف یہ دیکھا جائے کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی افیون کو ہیروئین میں تبدیل کرنے کا کیمیکل امریکا سے آتا ہے، اور پھر افیون کی جدید شکل ہیروئین امریکا کی یونیورسٹیوں میں فروخت ہوتی ہے۔خیبر پختونخوا کی باچا خان یونیورسٹی اورصوبہ سندھ کی اعلیٰ درسگاہوں منشیات کا استعمال تو معمولی اور معمول کی بات ہے۔شیشہ کلچر کو دانستہ حکمت عملی کے تحت پروان چڑھایا گیا۔زہریلی اشیائے خوردنی تیار کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ ان کی مصنوعات انسانی زندگی کے لئے مضر ہیں، مگر منافع کی بہتات نے انہیں اندھا کر رکھا ہے۔قانون نافذکرنے والے اداروں کی سرپرستی میں ایسے گھناؤنے کاروبار ملک کے گلی کوچوں میں ہر جگہ موجود ہیں۔ تقریباً تمام ٹی وی چینلز ہر ہفتے انکشاف کرتے ہیں اور پولیس کو رنگے ہاتھوں زہریلی اشیائے؟خورد و نوش بنانے کے اڈوں تک لے جاتے ہیں۔اس میں ملتان کی سوغات سوہن حلوہ ہو یا کسی دوسرے علاقے کی معروف ربڑی ہو دو نمبر پروڈکٹ مارکیٹ میں بک ر ہے ہیں۔ رمضان آنے والا ہے دو نمبر مشروبات فروخت کرنے والے شاہراہوں پر پتھارے لگائے نظر آئیں گے۔کوئی روکنے والا نہیں۔ مضر صحت اشیاء تیار کرنے والوں میں بعض عالمی شہرت کے حامل ادارے بھی شامل ہیں بے شرمی سے منافع خوری کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے نہیں۔ بھارت سمیت کئی ممالک میں نیسلے کی مصنوعات پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔منرل واٹر بھی غیر معیاری ہے اور کھلے عام بک رہا ہے۔ ایسے ماحول میں ہلاکت خیزوباؤں کی پیش گوئی کوئی مشکل کام نہیں۔سوال یہ ہے آئی ایم ایف اور عالمی ادارہئ صحت اس گھناؤنے کاروبار کے خاتمے کے لئے رکن ممالک کو مجبور کیوں نہیں کرتے؟ ایف اے ٹی ایف منشیات کی اسمگلنگ اور اس سے کمائی جانے والی دولت کی نقل و حمل روکنے کے لئے کام کر رہا ہے مگر اس حوالے سے لاڈلوں کی طرف سے آنکھیں بند رکھنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ 4ارب بے روزگاروں کی کفالت کا بوجھ اٹھانے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مضرِ صحت اشیاء کی تیاری کو سختی سے نہیں روکا جاتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں