انصاف کا نظام؟

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر شکایت کی ہے کہ پاکستان میں رائج انصاف کا نظام طاقتور ڈاکو نہیں پکڑ سکتا۔جیلوں میں صرف غریب قید ہیں۔اربوں کھربوں کی لوٹ مارکرنے والے باہر ہیں، مقدمات کا فیصلہ ہونے میں 50سال سے زیادہ وقت لگتا ہے۔ملک پر 30سال حکومت کرنے والے حساب دینے کو تیار نہیں،پی ڈی ایم کے نام سے یونین بنا رکھی ہے، سب اکٹھے ہو گئے ہیں، این آر او مانگ رہے ہیں،نہیں ملے گا۔ مٹھی بھر ایلیٹ کلاس نے ملک پر قبضہ کررکھا ہے۔امیر سوسائیٹیز میں رہتے ہیں جبکہ غریبوں کا کسی نے نہیں سوچا،غریب کچی آبادیوں میں رہتے ہیں،آدھا کراچی کچی آبادی پر مشتمل ہے۔کراچی کے لوگ بجلی کا کنکشن لینے کے لئے رشوت دیتے ہیں، لاہور میں بھی آہستہ آہستہ کچی آبادیاں بن گئیں۔ ریاست کمزورکو اوپر اٹھانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔کم لاگت ہاؤسنگ اسکیم لانے میں 2 سال مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔فور کلوژر لاء کیوجہ سے بینک قرضہ نہیں دیتا تھا۔بھارت جیسے ملک میں 10فیصد لوگوں کو گھروں کے لئے قرضہ دیا جاتا ہے،یورپ اور امریکہ میں 80فیصدلوگوں کو گھروں کے لئے قرضہ دیاجاتا ہے، پاکستان میں یہ سہولت0.2فیصد تھی۔ہاؤسنگ سیکٹر30صنعتوں کو ساتھ لے کر چلتاہے، لوگوں کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔ملکی معیشت میں بہتری آتی ہے۔ایلیٹ کلاس نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے انگلش میڈیم،نوکری کے لئے انگلش میڈیم،غریبوں کے لئے اردو میڈیم ہے،کوئی نہیں سوچتا اردو میڈیم والے بچوں کو کیسی تعلیم مل رہی ہے۔25لاکھ بچے مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں،ان کے بارے میں کبھی کسی نے نہیں سوچا۔غریب کے علاج کے لئے سرکاریاسپتال، امیر کے لئے پرائیویٹ اسپتال، سپر امیر کے لئے بیرون ملک علاج۔قبضہ گروپ، پولیس اور ججوں کی ٹرائیکا بنی ہوئی ہے۔کمزور لوگوں کی زمین پر قبضہ کر رہے تھے۔جن قوموں نے امیر کے لئے الگ اور غریب کے لئے الگ قانون بنائے وہ تباہ ہو گئی۔حکومت گھروں کی تعمیر کے لئے 3لاکھ کی سبسڈی دے رہی ہے۔ وزیر اعظم کے سامنے جس طرح کم لاگت ہاؤسنگ اسکیم رکھی گئی ہے وہ نہایت آسان اور پر کشش ہے، لیکن عملی طور پر اس میں ایسی الجھنیں ہیں جوکسی کچی آبادی کے مکین کو پورا کرنا بڑا مسئلہ ہے۔کامیاب جوان یوتھ انٹر پرینیورشپ اسکیم کے بارے میں موجودہ وزیر خزانہ نے میڈیاکو بتایا ہے کہ صرف چند ہزار نوجوان اس سے استفادہ کر سکے ہیں۔اس میں بھی خامیاں دور کی جارہی ہیں۔ وزیر اعظم غریب آدمی کی مالی استطاعت کو دیکھیں، اس کے مطابق ہاؤسنگ یاکاروباری اسکیم کوسادہ بنایا جائے، عملی پیچیدگیاں دور کی جائیں۔یاد رہے کاروبار کے فروغ کے لئے پہلی شرط ہے لوگوں کی جیب میں رقم ہو، خالی جیب آبادی میں کاروبار جگہ نہیں بنا سکتا، قوت خرید بڑھانے ضرورت ہے۔دیہی آبادی شہروں کا رخ اسی بناء پر کرتی ہے۔بیرون ملک آباد پاکستانیوں نے ترسیلات میں اضافہ کیا،ان کے پاس بھیجنے کے لئے رقم تھی۔ پاکستانیوں کی کثیرتعداد خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔انہیں روزگار فراہم کیاجائے،کورونا یقینا ایک مسئلہ ہے لیکن ابھی قابو میں ہے، اسمارٹ لاک ڈاؤن کارآمد ثابت ہو ا ہے، بھارت میں کورونا نے تباہی مچا رکھی ہے۔روزگار کی دستیابی کی راہ میں کورونا بھی حائل ہے۔ تاہم حکومتی اقدامات اس صورت حال کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ عام آدمی ماسک پہننے سے بھی گریزاں ہے۔ حالانکہ ہر شخص کی جیب میں ماسک موجود ہوتاہے،کم قیمت ہے، ہر جگہ دستیاب ہے۔کم وزن ہے،فولڈ کر کے جیب میں سما سکتا ہے۔مگر اسے استعمال کرنااکثریت نے نہ جانے کیوں اناکا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ لاہور اور پشاورجیسے حساس شہر وں میں بھی لاپروائی برتی جا رہی ہے۔اب عید کی تعطیلات میں اگر شہری گھروں میں رہے اوربلا وجہ گھومنے پھرنے سے پرہیز کیا تو امید ہے اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ انتظامیہ نے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے فوج بھی بلا لی ہے۔لیکن بنیادی کردار شہری خود ادا کریں، ماسک پہنیں، سماجی فاصلہ رکھیں۔کورونا سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔وزیر اعظم بھی بار بار یہی اپیل کر رہے ہیں۔صحت مند معاشرہ کاروباری سرگرمیوں کے لئے اشد ضروری ہے۔کورونا ایسی موذی وبا ہے کہ ماں کو ہو جائے تو اسپتال پہنچا کربیٹے بھاگ جاتے ہیں، بیٹی کے گھر پہنچے تو بیٹی دروازہ نہیں کھولتی۔اسے جان بوجھ کر دعوت نہ دی جائے،احتیاطی تدابیر سے انکار نہ کیاجائے۔ حکومت موجودہ حالات میں جوکر سکتی ہے، کر رہی ہے۔ایران، افغانستان سے آمد و رفت ممکنہ حد تک کم کر دی گئی ہے۔بارڈر پر تجارتی مراکز قائم کئے جا رہے ہیں، سیاحت کو فروغ دینے میں حکومت کوشاں ہے۔کسان کارڈ کے اجراء سے کسان استفادہ کرکے بہتر نتائج حاصل کر سکے گا۔تباہ حال معیشت کو بحال کرنے میں سب نے اپنا کردار ادا کرناہے۔زندگی کے ہر شعبے میں سدھار کی ضرورت ہے۔یہ نہ بھولیں کہ پاکستانی معیشت کو اس مقام تک پہنچنے میں دہائیوں کی غفلت اور غلط منصوبہ بندی کا عمل دخل رہا ہے، سستی پن بجلی پیدا کرنے کی بجائے گیس اور کوئلے سے چلنے والے پلانٹس لگا کر مہنگی بجلی خریدی گئی اس کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔ملکی اور عوامی مفادات کے برعکس معاہدے عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ان سے جان چھوٹنے میں وقت لگے گا،15سال کا معاہدہ 15سال سے پہلے ختم نہیں ہوگا، کیا گیا تو رینٹل پاور کی طرح ذلیل ہونا پڑے گا۔کرپشن سے جان اس وقت چھوٹے گی جب انصاف کا نظام درست کیا جائے گا۔موجودہ نظام طاقتور مجرم پر ہاتھ ڈالنے کے قابل نہیں، نئی قانون سازی ممکن نہیں کہ اپوزیشن پی ڈی ایم کی شکل میں مخالفت کر رہی ہے۔بقول وزیر اعظم عمران خان یونین بنا کر این آر او مانگ رہی ہے۔کرپشن صرف پاکستان میں نہیں قطرکے وزیر خزانہ بھی کرپشن کے الزامات میں گرفتار کر لئے گئے ہیں۔لندن کے میئر اور برطانیہ کے وزیر اعظم شکایت کر رہے ہیں کہ یہاں دنیاکے کرپٹ لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ان حالات میں پاکستانیوں کے لئے یہ خبر خوش آئند ہے کہ ایمزون نے پاکستان کو فروخت کندگان کی فہرست میں شامل کرنے کافیصلہ کر لیا ہے،چند روز میں باقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اب پاکستان عالمی منڈی میں شامل ہو گیاہے، پاکستان کے نوجوانوں، چھوٹے/ درمیانے درجے کے تجارتی اداروں اور کاروباری خواتین کے لئے ایک شاندار موقع ہے، پاکستانی مصنوعات دنیا بھر کے کروڑوں صارفین تک پہنچ سکیں گی۔ پاکستانی عوام کے دن یقینا بدلیں گے۔خوشحالی کے نئے دروازے کھلنا شروع ہو رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں