چیف سیکرٹری کو پارلیمانی کمیٹی کا سربراہ بنانا آئین سے انحراف ہے، قانونی ماہرین

کوئٹہ:بلوچستان کے سنیئر وکلا رہنماؤں امان اللہ کنرانی ایڈوکیٹ،روف عطا ایڈوکیٹ اور سید سلیم اختر ایڈووکیٹ نے نوول کورونا وائرس سے شہریوں کو بچانے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے چیف سیکرٹری کیپٹن (ر)فضیل اصغر کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کے قیام کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلی جام کمال اور ان کی قانونی ٹیم نے چیف سیکرٹری کو پارلیمانی کمیٹی کا سربراہ بنا کر آئین سے انحراف کیا ہے، بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی برابر نمائندگی کے ساتھ سنیئر وزیر یا پھر کسی تجربہ کار رکن کی سربراہی میں ازسرنو پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائیں،چیف سیکرٹری کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن غیر آئینی ہے،اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ وکلانمائندوں،تاجروں،سول سوسائٹی کو بھی کمیٹی کا حصہ بنایا جائیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کے قیام کو آمرانہ ذہنیت کی عکاسی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ بلوچستان اسمبلی کے 2018کے رولز آف پروسیجر کے مطابق کسی بھی پارلیمانی کمیٹی کا سربراہ/کنوینئر اراکین اسمبلی میں سے ہونا چاہیے،منتخب نمائندوں کے ساتھ کوئی بھی شخص پارلیمانی کمیٹی کا سربراہ یا کنوینئر نہیں بن سکتا ہے وہ صرف بربنائے عہدہ کمیٹی کا سیکرٹری بن سکتا ہے، انھوں نے چیف سیکرٹری بلوچستان کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی مذمت کرتے ہوئے اسے آمرانہ ذہنیت کی عکاس قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے انارکی پھیلی گی اس لیے بلوچستان کی آئینی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی کی دوبارہ قانون کے مطابق تشکیل دیا جائے، سابق ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان ممتاز قانون دان رف عطا ایڈوکیٹ کے بقول حکومت کو کوئی بھی پارلیمانی کمیٹی کے قیام سے قبل سپیکر بلوچستان اسمبلی سے مشاورت کر کے انھیں اعتماد میں لیکر صوبائی اسمبلی کے ممبران سے ہی کسی کو چیئرمین/کنوینئر پارلیمانی کمیٹی بنانا چاہیے،چیف سیکرٹری کی بطور پارلیمانی کمیٹی کے کنوینئر کا اعلامیہ غیر قانونی ہے جس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے انھوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام سے قبل سیکرٹری قانون اور حکومت کی قانونی ٹیم کی مناسبت رائے نہیں لی گئی ہیں اس لیے مذکورہ کمیٹی کی حیثیت کو منسوخ کر کے بلوچستان اسمبلی کے سنئیر وزیر یا پھر تجربہ کار رکن اسمبلی کی سربراہی میں نئی پارلیمانی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین اسمبلی کی برابر کی نمائندگی ہوں۔سپریم کورٹ کے سنئیر وکیل سابق نائب صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سید سلیم اختر ایڈووکیٹ نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے آئینی تقاضوں کو پورا کیے بغیر چیف سیکرٹری کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے جو کہ وزیر اعلی بلوچستان کی قانونی ٹیم کی کوتاہی اور غفلت ہیں،انھوں نے کہا کہ چونکہ بلوچستان کے تمام طبقات کروانا وائرس سے متاثرہ ہیں اس لیے وکلا نمائندوں،تاجروں،سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنا کر کروانا وائرس سے نمٹنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائیں اور اس ضمن میں آئین پاکستان کی پاسداری کرتے ہوئے بلوچستان بار کونسل سمیت وکلا کے دیگر باڈیز کے نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں