مختص ترقیاتی فنڈز خرچ کیوں نہیں کئے جاتے؟

یہ شکایت ثانوی حیثیت رکھتی ہے کہ ترقیاتی فنڈز کم ملے سوال یہ ہے کہ رواں مالی سال 2020-21 کے لئے جو فنڈز مختص کئے گئے تھے، ملنے کے باوجود مقررہ مدت میں خرچ کیوں نہیں کئے گئے؟وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے گزشتہ دنوں آٹومیشن تقریب سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا تھا:”اگراپوزیشن عدالت نہیں جاتی تو40ارب روپے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے جا سکتے تھے“۔تاہم انہوں یہ وضاحت بھی کردی تھی صوبائی پی ایس ڈی پی فنڈز لیپس نہیں ہوئے، اگلے سال استعمال کئے جا سکتے ہیں۔نظام حکومت کو بہتر چلانے کے لئے ٹیکنالوجی کااستعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔یاد رہے نظام حکومت میں ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال نگرانی کا بہتر استعمال نگرانی کا مؤثر ذریعہ ہے۔جواب دہی کاعمل عام ہورہا ہے، کسی محکمے کاسربراہ نہیں چاہے گا کہ محکمے کی کارکردگی پر سوال اٹھیں۔آنے والے وقت میں انکوائری بھی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہوگی۔بلوچستان کی ترقی میں پی ایس ڈی پی کا کردار70فیصد ہے۔نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا عمل تعلیم اور مواصلات کے محکموں کے علاوہ محکمہ صحت میں بھی کیا گیا ہے، پرائمری ہیلتھ کیئر کو دیگر شعبوں سے الگ کیاگیا ہے۔جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے آئندہ منصوبے بروقت مکمل کئے جاسکیں گے۔اس سے وقت بھی بچے گا اور اخراجات بھی کم آئیں گے۔ بروقت مکمل نہ کئے جائیں تو ان کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔واضح رہے جمہوری طرز حکومت کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ حکمران مالیاتی امور میں عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں۔قومی اسمبلی کی اہم ترین کمیٹی ”پبلک اکاؤنٹس کمیٹی“سمجھی جاتی ہے۔اس کا سربراہ اپوزیشن لیڈر ہوتا ہے۔وہ حکومت کی مالیاتی کارکردگی کے حوالے سے کڑی جانچ پڑتال کا ذمہ دار اور کلی طور پر باختیار ہوتا ہے۔اس خوبصورت بندوبست کو مک مکا کی سیاست نے تباہ کر دیاہے۔”تم میرے جرائم پر پردہ ڈالو، میں تمہارے جرائم کی پردہ پوشی کروں گا“والی حکمت عملی پر گزشتہ کئی دہائیوں تک عمل ہوتا رہا۔پی اے سی نے اپنا کام چھوڑ دیا؛جرائم کی باز پرس ترک کر دی گئی،بلکہ خود بھی لوٹ مار میں لگ گئی۔آج کل اسی لوٹ مار کی جواب دہی میں مصروف ہے۔صوبوں نے بھی یہی چلن اپنا لیا۔بلوچستان کے ایک وزیر اعلیٰ کا یہ جملہ ملک بھر میں ضرب المثل کا درجہ اختیار کر گیا تھا:
”ڈگری ڈگری ہوتی ہے، جعلی ہو یا اصلی!“
حکومتی نفسیات کی اس تبدیلی کانتیجہ یہ نکلا کہ ایم این ایز،اور ایم پی ایزجعلی ڈگری لے کر قومی اور صوبائی قانون سازاداروں (معززایوان) میں آتے اور عدالتوں میں جعلی ڈگری ثابت ہونے پر گھر بھیج دیئے جاتے۔ملک کے تمام محکموں میں جعلی اسناد والے بٹھا دیئے گئے اور جعلی اسناد والے پائلٹس جہاز اڑانے اور تباہ کرنے لگے پی آئی اے منافع بخش ادارہ تھا،نقصان والا ادارہ بن گیا۔ پاکستان اسٹیل ملز کا حشر عام آدمی کے علم میں ہے۔کاراکے رینٹل پاور پراجیکٹ،سیندک اور ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹس میں ہونے والی دھاندلی بھی اب راز نہیں رہی۔ان حالات میں بجٹ سازی کا عمل اعدادوشمار کی جادوگری بن جائے تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیئے۔ اس کا مذاق اڑانے کی بجائے اصلاح کے لئے تجاویز دینے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن لیڈرشہباز شریف بجٹ کے اعدادو شمار پر شبہات کا اظہار کرنے کی بجائے عام آدمی کو بتائیں کہ یہ سلسلہ کب شروع ہوا اور اس کی سرپرستی کرنے والی حکومتیں اور اپوزیشن کون سی پارٹیوں پر مشتمل تھیں؟جب تک خرابی کے اسباب اور اسے پروان چڑھانے والے ذمہ داروں کاعلم نہیں ہوگا، انہیں دور کرنے کاراستہ نہیں ملے گا۔یہ کام آسان نہیں، مگر کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔اب وقت آگیا ہے کہ گروہی، جماعتی اور مسلکی حصار سے باہر نکل کر سوچا اور دیکھاجائے۔تنگ نظری مصلحت پسندی نے ملک اور عوام کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔عمومی طور پر یہ سمجھا جارہا ہے کہ بجٹ سازی اور بجٹ کی منظوری کے دوران ملکی سیاست کی سمت سامنے آجائے گی۔ لات مار کر گرانے کا کام عوام کی طرف منتقل کر دیاگیا ہے۔مبصرین کے پاس تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کے سوا کوئی مشغلہ نہیں رہا۔ہلکی پھلکی رائے دینا فیصلہ کن تجزیہ نہیں کہلاتا۔پی ٹی آئی کو اقتدار سنبھالے ابھی تین سال نہیں ہوئے،جن قرضوں کی ادائیگی اسے کرنا پڑی اور آئندہ بجٹ میں بھی کرنا پڑے گی،وہ قرضے اپوزیشن کے دور حکومت میں لئے گئے تھے۔قرض لینے والی حکومتوں نے ایسے منصوبے نہیں لگائے جو اس ادائیگی میں اپنا حصہ ادا کرتے،ملکی آمدنی کانصف ماضی میں لئے گئے قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ بجلی کی پیداوار کے سلسلے میں کئے گئے معاہدے اپنی جگہ سوالیہ نشان ہیں۔لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے شہباز شریف کایہ اعلان کہ ”لوڈ شیڈنگ جانے اور آنے والی حکومت جانے“ تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں ڈیم تعمیر نہ کرنا قومی جرم سمجھا جانا چاہیئے۔یاد رہے معاشی خرابی پی ٹی آئی کی حکومت کو ورثے میں ملی ہے، اپوزیشن جرأت سے کام لے،تسلیم کرے کہ ان سے بعض فیصلے کرتے وقت غلطی ہوئی، انتظامی لحاظ سے بھی صورت حال تشویشناک تھی، ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر رکھا تھا،40کڑی شرائط پوری کرنا تھیں۔بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کا خطرہ سرپر منڈلا رہاتھا۔اب ایف اے ٹی ایف نے رپورٹ جاری کر دی ہے کہ پاکستان نے 40میں سے31سفارشات پر عمل درآمد کرلیا ہے، گرے لسٹ کا فیصلہ 21 جون کو کیا جائے گا۔ امریکہ معروف بزنس میگزین فوربزاپنی حالیہ رپورٹ میں لکھتا ہے کہ ایسے وقت میں جب امریکہ اور بھارت جیسے ممالک کو بھی کورونا سے نمٹنے میں دشواری کا سامنا ہے،دنیا بھر میں کورونا وائرس کیسز کی شرح62کیسز فی دس لاکھ ہے جبکہ پاکستان میں فی دس لاکھ افراد میں نئے کورونا کیسز کی شرح 12افراد ہے،میگزین مزید لکھتا ہے کہ پاکستان اپنی معیشت کی بحالی میں بھی کامیاب رہا ہے۔توقع ہے کہ 2021میں پاکستانی معیشت تقریباً 4فیصدکی شرح سے ترقی کرے گی۔ اس لئے اپوزیشن کو چاہیے کہ بجٹ سازی میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرے، بہتر تجاویز پیش کرے،تعاون کرے۔اپوزیشن نے اسی ملک میں سیاست کرنی ہے، اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں