ملک ریاض کا پاکستان

تحریر: رشید بلوچ
ملک ریاض نے پاکستانی معاشرے کی نبض شناسی پر مہارت کی ڈگری برسوں پہلے حاصل کر رکھی ہے، وہ غریبوں اور امیروں پرراج کرنے کا ہنر اچھے طریقے سے جانتے ہیں،دنیا بھر میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ہیرے اور سونے کی اسمگلنگ سے بھی زیادہ منافع بخش ہے، ملک صاحب کا بنیادی کاروبار رئیل اسٹیٹ ہی ہے اب وہ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے بے تاج بادشاہ بن چکے ہیں، ملک ریاض سے کسی نے پوچھا تھا کہ ہاؤسنگ اسکیمزکی آرکیٹیکٹ آئیڈیا آپ کو کہا سے ملتا ہے؟ جواب دیا پاکستانی بیوقوف ہیں،میں دنیا بھر کی تیار ہاؤسنگ اسکیمز کی نقول پاکستان میں بناتا ہوں پاکستانی رئیس اسے لاثانی سمجھ کر مہنگے داموں خرید لیتے ہیں،ملک ریاض نے اپنے کاروبار کا آغاز رئیس البلاد جڑوا شہروں کے بیچوں بیچ سے کیا تھا جہاں قانون راولپنڈی انتظامیہ کا چلتا ہے،اسکے بعد لاہور میں انہوں نے بحریہ ٹاؤن کا آغاز کر دیا، بحریہ ٹاؤن لاہور کے اندر انہوں نے وسیع و عریض رقبے پر جدید محل بنا کر اسے سابق صدر آصف علی زرداری کو تحفے میں پیش کردی جسے بلاول ہاؤس کا نام دیا گیا ہے، آصف علی زرداری اور ملک صاحب کے درمیان گہرے تعلقات کی بنیاد بلاول ہاؤس لاہور کی پہلی خشت رکھنے سے ہوئی تھی،اس سے قبل شریف و چوہدری برادران سے ملک صاحب کے تعلقات بام عروج پر تھے، اب ملک صاحب کو زرادری صاحب کی رفاقت درکار تھی، سو بلاول ہاؤس لاہور دوستی کی وجہ بنی، یوں سمجھ لیں جس دن بلاول ہاؤس کی کنجیاں زرداری صاحب کے قدموں میں رکھ دی گئی تھیں اسی دن سے ملیر فتح کرنے کا آغاز ہوچکا تھا، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کینیڈاوالے علامہ صاحب نے شریعت کی نفاذ کی خاطر اپنے مریدوں کے ساتھ دارالخلافہ اسلام آباد کا گیراؤ کر رکھا تھا،علامہ صاحب کوزیرو پوائنٹ سے ڈی چوک کی طرف بڑھنے سے روکنے کیلئے پیپلز پارٹی نے اپنے اتحادی جماعت ق لیگ کے کماش بڑے چوہدری صاحب کومزاکرات کیلئے ثالث مقرر کردیا، چوہدری صاحب کے مزاکراتی ٹیم میں ملک ریاض بھی شامل تھے جنہیں علامہ صاحب نے بڑے بے رخی کے ساتھ اپنے کنٹینر پر چھڑنے کی اجازت نہیں دی،ملک صاحب کا یہ خاصہ ہے کہ انکا ہر صاحب منصب کے ساتھ دوستیاں رہی ہیں لیکن ان کا اور ہمارے سبی نڑاد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے صاحبزادے ارسلان افتخار کے ساتھ پھڈا پڑ گیا،یہ پھڈا اربوں کے پیسوں کی لین دین پر ہوا تھا، ملک صاحب نے مسند انصاف پر بیٹھے چیف جسٹس کے صاحبزادے پر من پسند فیصلے کے عوض اربوں روپے ہتھیانے کاالزام لگا یا تھا،اس وقت چوہدری افتخار نے اپنے صاحبزادے اور ملک صاحب کے,, معاملے،، پر خود کو لاعلم قرار کر دیا بلکہ ایک تین رکنی بینچ بھی بنا دیالیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ معاملہ تھم گیا،چوہدری صاحب کا بیٹا لندن چلا گیاور ملک صاحب اپنے دھندے پرجت گئے، پیپلز پارٹی کے بعد ن لیگ کی حکومت آگئی پنجاب میں ملک صاحب کا کاروبار خوش اصلوبی سے چل رہا تھا کہ اچا نک ن لیگ کے طاقتور وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ملک صاحب سے ان بن ہوگئی، چوہدری نثار نے ملک صاحب پر یہ کہہ کر نکیل کھسنا شروع کردیا کہ وہ عام لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے بحریہ ٹاؤن کو وسعت دے رہے ہیں، شروع میں ملک صاحب نے چوہدری صاحب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا روز میڈیا کا پرائم ٹائم خرید کر چوہدری نثار کو لگے ہاتھوں لیتے رہے بلآخر انہیں ادارک ہوا کہ اسے اپنے سے بڑے ٹھاکر سے واسطہ پڑا ہے اسلئے انہوں نے چوہدری نثار کے ساتھ مفاہمت کا رستہ اپنا لیا،لیکن ایک ضدی چوہدری نے ملک صاحب سے صلح نہیں کی مجبورا ملک صاحب کو پنجاب کی سرزمین چھوڑ کر سندھ کا رخ کرنا پڑا،ورنہ سندھ جانے کا ارادہ اتنی جلدی نہ تھی، میرے خیا ل میں پنجاب کے باسیوں کو چوہدری نثار کا احسان مند ہونا چاہئے،شاید بڑے لوگوں میں چوہدری نثار واحد شخصیت ہیں جن کا ملک صاحب سے نہ بن سکی ورنہ پاکستان کا کوئی ایسا بڑا گھرانہ نہیں جس سے ملک صاحب کے تعلقات میں رتی برابر بھی بگاڑ پیدا ہو ا ہو، ملک صاحب کے نہ صرف سیاسی خاندانوں سے اچھے مراسم ہیں بلکہ عدلیہ، مقتدرہ اور بڑے میڈیا مالکان سے ان کی اچھی خاصی دوستی ہیں۔۔
ملیر ریاست کھیر تر کا حصہ رہا ہے جسے حمل کلمتی نے برفت راجہ کی درخواست پر پرتگیزیوں کومار بھگایا تھا،بلوچوں کی آباد کاری حمل کی پد ریچ ہے،ملیر کراچی کا ایک وسیع علاقہ ہے، بد قسمتی سے یہ علاقہ بلوچوں کا ایک قدیم مسکن ہے ملیر میں ہوت،گبول،جاموٹ،بھوتانی،برفت،جوکھیہ،پالاری صدیوں سے آباد ہیں،بلوچ گوریلا لیڈرحمل کلمتی کے پرتگیزیوں پر وارکر نے کے آثار اسی ملیر سے ملتے ہیں،ملیر کے ہمسایہ میں بمبور واقع ہے، اسی بمبور میں واجہ پنو نے ماسی سسی سے داستان عشق کی شروعات کی تھی، بمبور میں واجہ پنو کے قدموں کے چھاپ ملیں گے،غور سے سننے پر ماسی سسی کی پازیب کی جھنکار سنائی دیگی، پنو کی یادوں میں سسی کی سسکیاں بھی،اگر حمل کی تلوار کی دھار نہ گھونجتی تو پنوکبھی سسی سے نہ مل پاتا، صدیوں بعد سسی اور پنوں کے اس وادی عشق میں ملک ریاض نے اپنی کمرشل ایمپائر کھڑا کردیا ہے،سسی کی قبر پر کسی وڈیر ہ کا محل تعمیر ہو اہوگا، سسی بلک رہی ہوگی،لیکن ملک ریاض کو سسی کی بلکنے،سسکنے کی آوازنہیں آرہی، جس سر زمین کو بچانے کیلئے حمل کلمتی نے کیچ سے سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کرکے پرتگیزی حملہ آوروں کو دھول چھٹائی تھی اسکے اولاد ملک ریاض سے مات کھا گئی، سسی اور پنوں نے صدیوں پہلے بلوچ اور سندھیوں کو عشق بھرے رشتے میں جوڑ دیا تھا، دونوں سسرالی ملک ریاض کے سامنے بے بس ہیں، پرتگیزی صدیوں پہلے طاقتور تھے اسکے اولاد آج بھی نسل اور رنگ بدل کر اسی طرح طاقتور ہیں حملہ آور بھی ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ آج کوئی حمل موجود نہیں ہے، ملیر کے چند باسی ملک ریاض کے چوکٹ پر بیٹھے انصاف کے متقاضی ہیں لیکن کیا،کیا جائے عدلیہ سے لیکر مقننہ تک ملک ریاض کے لشکر کا حصہ ہیں،بحریہ ٹاؤن کے مقابلے میں ملیر کے باسیوں کی آواز بہت ہی کمزور ہے، گزشتہ 8سالوں سے ریاست کھیر ترکے باسی ریاست پاکستان کو ایک قبضہ گیر سے گلو خلاصی کیلئے پکار رہے ہیں لیکن سننے کو کوئی تیار نہیں، بے سر و پا مخلوق نے تعیش میں آکر ملک ریاض کے خزانے کے چند گاڑیوں کو اور ایک دروازے کو کیا جلا دی پوری ریاستی مشینری حرکت میں آگئی ہے، لٹ و کٹ اور مقدمات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے،اس میں کوئی بعید نہیں کہ سندھ سرکار بہت جلد ملک ریاض کو مظلوم اور علاقہ مکینوں کو حملہ آاور قرار دیکر قابض بحریہ ٹاؤن کو وسعت دینے کیلئے مقامی آبادی کوبے دخل کرکے ریاستی طاقت کو عمل میں لائے گی،سندھ میں حمل کلمتی نہ سہی کم سے کم ایک عدد چوہدری نثار بھی پیدا ہوتا ملک ریاض کو کم سے کم یہ سب کرنے جرت نہ ہوتی لیکن ہم بھو ل رہے ہیں کہ سندھ میں چوہدری نثار نہیں بلکہ سردار آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرادری پیدا ہوئے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں