کینیڈا میں اجتماعی قبر

تحریر: انور ساجدی
گزشتہ ماہ کینیڈا کے علاقہ برٹش کولمبیا کے ایک کیتھولک اسکول کے احاطہ سے ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی جس میں 215 کمسن بچوں کی باقیات موجود تھیں حکومتی کوششوں کے باوجود اس اندوہناک خبر کو پھیلنے سے نہ روکا جاسکا کینیڈا شمالی امریکا کا وہ علاقہ تھا کہ جہاں گوروں کی آمد سے قبل مقامی انسانوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی لیکن آباد کاروں نے ان پرامن لوگوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کیا‘نہ جانے کینیڈا میں آج کل کوئی ریڈ انڈین آباد ہے کہ نہیں لیکن امریکا میں تین سو کے قریب ”ریزرو“ علاقے ہیں جہاں 50 لاکھ کے قریب مظلوم بے بس اور لاچار انڈین جانوروں کی طرح رہتے ہیں۔
امریکا آج نام نہاد مہذب دنیا کا سرخیل اور بنیادی انسانی حقوق کا علمبردار ہے لیکن اس کی گزشتہ تین سو سال کی تاریخ انتہائی شرمناک اور انسانیت کش ہے مقامی ریڈ انڈین آبادی کی نسل کشی کے بارے میں بہت زیادہ کتابیں نہیں ہیں لیکن جو تفصیلات دستیاب ہیں انہیں پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے گزشتہ روز ضرارکھوڑو نے ان مظالم کے بارے میں جو مضمون لکھا اس میں کہا گیا ہے کہ گوروں نے 6 کروڑ انڈین مارے جبکہ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ تعداد 16 کروڑ تھی کینیڈا تو امریکا سے بھی بڑا ہے یہاں بھی اس سے بڑھ کر مظالم ہوئے ہونگے۔
ابھی کل کی بات ہے کہ وہاں پر ایک متعصب ٹرک ڈرائیور نے ایک پاکستانی خاندان کے 5 افراد کو کچل کر ہلاک کردیا اگر 21 ویں صدی میں ایسا ہورہا ہے تو گزشتہ 5 سو برس پہلے کیا کچھ نہیں ہوا ہوگا گورے جہاں بھی گئے انہوں نے مقامی آبادی کا قتل عام کیا اس سلسلے میں امریکی ریاست ہوائی‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور افریقی ملک رہوڈیشیاء (زمبابوے) کی مثالیں سامنے ہیں اگر گوروں کا بس چلتا تو وہ ہندوستان کو بھی مقامی لوگوں سے خالی کردیتے لیکن ہندوستان میں منظم حکومتیں قائم تھیں اور آبادی بہت زیادہ تھی اگرچہ قتل عام کے بے شمار واقعات ہوئے لیکن وہ کروڑوں لوگوں کو ختم نہ کرسکے مقامی لوگوں کو مارکر اجتماعی قبروں میں دفن کرنا گوروں کی پرانی روایت ہے ایسی قبریں ساؤتھ افریقہ اور آسٹریلیا سے بھی ملی ہیں بلکہ جہاں جہاں گوروں نے قبضہ کرکے اپنی حکومت بنائی وہاں قتل عام کے بعد مقامی لوگوں کی باقیات کو اجتماعی قبروں میں چھپادیا‘ تاریخ سے ثابت ہے کہ ان قبضہ گیروں کو اپنے مذہبی پیشواؤں کی حمایت حاصل تھی پہلے عیسائی مشنری وہاں جاتی تھی اس کے بعد گوروں کی فوج پہنچ جاتی تھی۔
یہ مشہور مقولہ ہے کہ
پادری ہمارے ہاتھوں میں بائبل تھمادیتے ہیں جب ہماری آنکھ کھلتی ہے تو ہمارے ملک پر گوروں کا قبضہ ہوچکا ہوتا ہے۔
کینیڈا کے علاقہ برٹش کولمبیا میں بچوں کی جو اجتماعی قبر ملی ہے وہ ایک کیتھولک اسکول تھا اس زمانے میں بچوں کو والدین سے جدا کرکے ان اسکولوں میں داخل کیا جاتا تھا تاکہ وہ عیسائی بن سکیں مگر عیسائی بننے کے باوجود وہ ان رنگدار بچوں کو مار دیتے تھے تاکہ وہ آئندہ چل کر گوری آبادی کے لئے مسئلہ پیدا نہ کرسکیں بتایا جاتا ہے کہ انڈین آبادی کی سب سے زیادہ اجتماعی قبریں لاطینی امریکا میں ہیں چونکہ یہ براعظم ابھی تک غیر مہذب ہے اس لئے ان کی خبریں زیادہ عام نہیں ہوئیں ہولناک قتل عام کے باوجود ریڈ انڈین آبادی جنوبی امریکا میں زیادہ ہیں کیونکہ وہ جان بچانے کی خاطر اونچے پہاڑوں اور جنگلوں میں چھپ گئے تھے زیادہ دور نہ جائیے اپنے عظیم پڑوسی ملک چین کو دیکھئے جو دیکھتے ہی دیکھتے صرف 35 برس کے عرصہ میں ایک سپر پاور بن گیا ہے جس کی حرکتیں سابقہ صدیوں کے امپیریل پاور جیسی ہیں چین کافی عرصہ سے تاریخی سنکیانگ صوبہ میں ڈیمو گرافی تبدیل کررہا ہے پہلے اس نے ریاستی دارالحکومت کاشغر سے ارومچی منتقل کیا جو ایک جدید شہر ہے اس کے ساتھ ہی ہزاروں مسلمان بچوں کو اپنے والدین سے جدا کرکے ایسے بورڈنگ ہاؤسز میں ڈالا جہاں انہیں پکا چینی بنایا جارہا ہے مغربی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق انہیں مذہب سے دور کرکے لامذہب بنایا جارہا ہے سنکیانگ کے وسیع و عریض علاقہ میں مساجد پر تالے لگادیئے گئے ہیں عبادات پر پابندی لگادی گئی ہے کیا معلوم کہ جب ایسٹرن ترکستان تحریک زوروں پر تھی تو کتنے اوغوز ترک مار دیئے گئے ہونگے اور جگہ جگہ ان کی اجتماعی قبریں ہونگی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی حکومت کے دباؤ پر پاکستان نے بے شمار اوغوز مسلمانوں کو واپس بھیج دیا ہے جہاں ان کی زندگی کی گارنٹی نہیں ہے مقام عبرت ہے کہ ہمارے ملا صاحبان جو مسلسل تبلیغ میں مصروف ہیں مجال ہے جو ان مظالم پر چین کا نام لیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ چین اس وقت ہمارا مائی باپ ہے چند سال قبل جب چین ناراض ہوا تھا تو اسے راضی کرنے کے لئے کسی اور کو نہیں بلکہ اس وقت کے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کو وہاں پر بھیج دیا گیا تھا اب جبکہ سنکیانگ میں مظالم کا لامتناہی سلسلہ بڑھ چکا ہے تو ساری دنیا اس پر خاموش ہے حتیٰ کہ ترکی کے طیب اردگان نے بھی اپنے لب سی لئے ہیں اور وہ اپنے ہم نسل‘ ہم مذہب اور ہم زبان لاکھوں اوغوروں پر مظالم پر مجرمانہ خاموش اختیار کئے ہوئے ہیں۔
پاکستانی حکمران ایک طرف ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف طاغوتی طاقتوں کے نرغے میں ہیں ایک طرف چین ہے تو دوسری طرف امریکا‘چین کو پاکستان کے وسائل اور آبی گزرگاہیں درکار ہیں جبکہ امریکا کو زمینی و فضائی اڈے چاہئیں حالانکہ ماضی میں جب بھی اڈے دیئے گئے اس کے بدلے اربوں ڈالر وصول کئے گئے جو عوام تک نہ پہنچ سکے جس کی وجہ سے عوام مفلوک الحال ہیں اور پاکستان دنیا کے چند ایک ممالک میں شامل ہے جس کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے پاکستان میں اوریا مقبول جان جیسے دانشور ہیں جنہیں کینیڈا اور امریکا میں مقامی لوگوں کی اجتماعی قبریں نظر آتی ہیں لیکن وہ ہمالہ کے اس پار دیکھنے کی جرأت نہیں کرتے ہمالہ تو اونچاہے ہمارے خضدار کے علاقہ توتک سے بھی ایک اجتماعی قبر ملی تھی جس کی عدالت نے انکوائری کے بعد تصدیق کی تھی لیکن مجال ہے کہ اوریا جیسے لوگوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہو۔ اور کیا معلوم کہ ملیر کے دیہات پر جو بلڈوزر چلائے گئے ہیں کہیں وہاں بھی چند سال بعد اجتماعی قبروں کی دریافت ہو اصل میں قبضہ گیروں کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کیونکہ انہیں مقامی انسانوں سے غرض نہیں بلکہ مقبوضہ علاقوں اور ان کے وسائل سے سروکار ہوتا ہے اور قبضہ گیر اس کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
شکر ہے کہ ابھی تک حکومت کا زیر غور میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا بل منظور نہیں ہوا ورنہ اس طرح کی تحریروں کی گنجائش نہیں ہوتی اگر حکومت سنجیدہ ہے تو وہ قانون ضرور نافذ ہوگا جس کے بعد پاکستان میں اظہار رائے کی صورتحال چین اور شمالی کوریا جیسی ہوجائے گی کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ اس نے کب نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔ حالانکہ آج تک کسی عدالت اور حکومتی ادارے نے وضاحت نہیں دی کہ یہ نظریہ پاکستان ہے کیا اگر کوئی متحدہ ہندوستان کی مسلم لیگ پر تنقید کرے تو وہ بھی قابل تعزیر جرم ٹھہرے گا اسی طرح اداروں کے بارے میں مکمل زبان بندی ہوگی شروع میں تو ہزاروں لوگ انجانے میں جیل جائیں گے اس کے بعد ہی خاموشی اختیار کی جائے گی نئے قانون کی منظوری کے بعد صرف حکومت اور اس کے مصاحبین کے لئے ہی میڈیا کو چلانا ممکن ہوگا پرنٹ میڈیا کا تو مکمل قلع قمع ہوجائے گا البتہ جو اخبارات سرکاری گزٹ بننا قبول کریں گے صرف وہی زندہ رہیں گے جبکہ چینلوں کا مکمل خاتمہ ہوگا صرف پی ٹی وی اور اس کے چینل باقی رہیں گے کہا جاتا ہے کہ چین شمالی کوریا اور روس آزاد میڈیا کے بغیر ترقی کررہے ہیں تو پاکستان کیوں آگے نہیں جاسکتا یہ خیال بالکل درست ہے لیکن چین روس اور شمالی کوریا کے سربراہان مملکت تو تاحیات ہیں اس مسئلے میں بھی ان کی پیروی کی جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ تحریک انصاف کو کمیونسٹ پارٹی قرار دیا جائے پارلیمنٹ کا نام پولٹ بیورو رکھا جائے جس کے اراکین کا تعلق برسر اقتدار جماعت سے ہونا ضروری ہے جبکہ ان کے لئے انتخاب کی ضرورت نہ ہو بلکہ انہیں نامزد کیا جائے لیکن کوئی بعید نہیں کہ اس نظام کے باوجود بھی یہاں پر تختے الٹنے کا سلسلہ جاری رہے اور ہر چند سال بعد کمیونسٹ پارٹی تبدیل ہوتی رہے کیونکہ یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ ہوسکتا ہے۔یقین مانیئے جو لوگ آج کنگز پارٹیوں میں شامل ہیں وہی کمیونسٹ پارٹی کے روح رواں بھی ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں