چاغی قحط سالی کا شکار

پانی کی قلت صرف چاغی نہیں بلکہ پورا ملک پانی کی شدیدقلت کا شکار ہے،بلکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے اسے عالمی مسئلہ سمجھاجانا چاہیئے۔یاد رہے قحط سالی بلوچستان کا دیرینہ مسئلہ ہے۔بلوچ عوام مختصر وقفوں کے بعد اس پریشان کن صورت حال کاسامناکرتے ہیں۔ ان کی زمینی اور باغات اجڑ جاتے ہیں، جانور بڑی تعداد میں ہلاک ہوجاتے ہیں،لوگوں کو اپناگھر چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا پڑتاہے۔دوسری جگہ منتقل ہونے کے معنی صرف وہی خاندان سمجھ سکتے ہیں جو اس عذاب کا سامنا کرتے ہیں۔حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داری یہی ہے کہ عوام کو سہولیات فراہم کریں،ایسی منصوبہ بندی کریں جو عوام کے سماجی پریشانیوں سے بچا سکے۔پانی زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے۔انسان ہمیشہ دریاؤں کے کنارے آباد ہوا۔قدیم ترین تہذیبیں بھی دریاؤں کے اطراف ہی ملتی ہیں۔لیکن انسان نے پانی کا ذخیرہ کرنے ہنر بھی ہزاروں سال پہلے سیکھ لیا تھا۔ڈیم تعمیر کئے گئے تاکہ خشک سالی کے دوران ذخیرہ شدہ پانی استعمال کیا جائے۔بلوچستان میں ڈیم تعمیر کرنے پر سب سے کم توجہ دی گئی۔بلکہ آض بھی کسی علاقے میں ڈیم تعمیر کیا جاتاہے تو بعض بااثر افراد سے پسند نہیں کرتے، اسے عوام دشمن اقدام قرار دیتے ہوئے بیانات دیتے ہیں۔واضح رہے بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا 44فیصد حصہ ہے۔جبکہ آبادی کراچی شہرکے برابر ہے۔ قدرت ایسے مقامات فراوانی سے عطا کئے ہیں، جہاں ڈیم تعمیر کرکے صوبے کو سرسبزوشاداب بنایاجا سکتا ہے۔علاقے کوترقی دی جائے اور عوام کو خوشحالی تک لے جایا جا سکتا ہے۔وندر ڈیم آرسی ڈی ہائی وے چند کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے، اس کا سنگ بنیادانہی دنوں رکھاگیاتھا جب تربیلہ اور منگلا ڈیم تعمیر ہوئے تھے۔اتنی طویل غفلت نہ برتی جاتی تو ڈیم کے پانی سے زیر زمین پانی کی سطح بھی سینکڑوں فٹ نیچے نہ جاتی کہ استعمال ناممکن ہو جاتا۔بجلی کی قلت اور لوڈشیڈنگ بھی تا حال مستقل عذاب بنے ہوئے ہیں۔جب ضلع لسبیلہ کی تحصیل وندر جیسے علاقے میں، مین شاہراہ کے قریب، ڈیم تعمیر کرنے پر توجہ نہیں دی گئی تو دوردراز علاقوں میں ڈیم تعمیر کرنے کے بارے میں کون سوچتا۔ اس دوران زیادہ عرصہ وزارت اعلیٰ بھی اسی ضلع کے پاس تھی۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات مختلف تھیں، عوام کی ترقی اور خوش حالی پہلی ترجیح نہیں تھی۔ اب بھی درست حکمت عملی اختیار کی جائے، عوام کی مشکلات دور کرنا پہلا مقصد قرار دیا جائے تو معاملات آج بھی سنبھالے جا سکتے ہیں۔ دستیاب وسائل کے دیانت دارانہ، اوردانشمندانہ استعمال سے عوام کی زندگی آسان بنائی جاسکتی ہے۔ہر سال لاکھوں کیوسک پانی سیلاب کی شکل میں سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔سیلابی ریلا اپنے ساتھ پل اور سڑکیں بھی بہا کر لے جاتا ہے۔ڈیم بناکر اس بھاری نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔ماضی میں نہیں بنائے گئے،اس کا ماتم نہ کیا جائے آج فیصلہ کر لیا جائے کہ ڈیموں کی تعمیر صوبائی حکومت کی پہلی ترجیح ہوگی۔وفاق کو فزیبلٹی بناکر تمام تفصیلات سے آگاہ کیا جاتا ہے اس کے بعد اقتصادی کونسل فنڈز مختص کرتی ہے۔اپنی تیار کردہ اسکیمات بعض مقامات پر قدرت نے ایسا پہاڑی سلسلہ کہ تھوڑا سا حصہ اونچا کردی جائے تو پانی کا ذخیرہ کرنے کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے۔قدرتی جھیلوں کی طرف اس پانی کے بہاؤ کو موڑ دیں،جھیل بھر جائے گی۔دریائے سندھ کے اطراف وفاق نے اسی قسم کی منصوبہ بندی کی ہے۔سب جانتے ہیں کہ ہمارے صوبے میں ساراسال بارش نہیں ہوتی۔مون سون کے مہینوں میں برسنے والی بارش کے پانی کو سمندر میں ڈالنا بند کردیں، اس پانی کو ڈیم بنا کر جمع کیا جائے اور قحط سالی کے زمانے میں اس جمع شدہ پانی سے اپنی ضرورت پوری کی جائے۔ قومیں اپنی وسائل دریا برد نہیں کرتیں، انہیں دولت میں تبدیل کرنے کے طریقے سوچتی ہیں۔یاد رہے بلوچستان کو قدرت نے وسیع و عریض زمین عطا کی ہے۔اسے آباد کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جاتی تو آج یہاں چروں طرف لہلہاتے کھیت ہوتے، پھلوں سے لدے باغات ہوتے۔ موسمی اور جغرافیائی حالات کے مطابق جس مقام پر جو سبزی،جو درخت اگایا جا سکتا ہے، اگانے کے بارے میں سوچا جائے، اور غیر آباد زمین کو آباد کر کے اسے خوشحالی کا ذریعہ بنایا جائے۔دنیا نے زراعت میں بڑی تحقیق کی اور اس کے نتیجے میں فی ایکڑ پیداوار میں نمایا اضافہ کیا۔اسرائیل1976میں 100من مکئی فی ایکڑ پیداوار حاصل کر رہا تھا، پاکستان آج چار دہائیوں بعد بھی صرف 60،70من حاصل کر رہا ہے۔سندھ کے صوبائی وزیر زراعت پی کے شاہانی نے زرعی کانفرنس کے دوران تجویز دی کہ آئندہ کانفرنس اسرائیل میں منعقد کی جائے تاکہ دنیا اسرائیل کے تجربات سے استفادہ کر سکے۔پی کے شاہانی کے خلاف میڈیا نے اتنا شور مچایا کہ انہیں مستعفی ہونا پڑا تھا۔ دیگر ممالک سے سیکھا جا سکتاتھا نہیں سیکھاآج سیکھا جاسکتا ہے۔ ہر شعبے میں مثالی ترقی کرنے والے چین سے مدد لی جا سکتی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کسی کی میراث نہیں۔بلوچستان کی حکومت اپنے زرعی ماہرین کو چین بھیجے، واپس آکر وہ حکومت کر رپورٹ اور تجاویزتیار کر کے دیں کہ بلوچستان اس شعبے میں ترقی کے لئے کیا اقدامات کرے۔ زراعت صوبائی محکمہ ہے اسے ترقی دینا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بلوچ عوام محنتی اور جفاکش ہیں۔چین ترقی کر سکتا ہے تو بلوچستان کیوں نہیں کر سکتا؟ ذہانت اور محنت میں بلوچ نوجوان دنیا کے کسی ملک سے پیچھے نہیں۔ضرورت ہے کہ ان کی مناسب رہنمائی اور سرپرستی کی جائے۔انہیں مواقع فراہم کئے جائیں۔ان پر بھروسہ کیا جائے،بہترین نتائج دیں گے۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔نوجوانوں کو ملوں اور کارخانوں میں صرف نوکریوں کے لئے تیار نہ کیا جائے، زراعت اور معدنیات کے شعبوں کے لئے نوجوانوں کو مناسب تربیت فراہم کی جائے۔ وفاق نوجوانوں کو کاروبار کے لئے قرض دے رہا ہے، ہر شعبے میں ہنر مند اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے،باصلاحیت بلوچ نوجوان مختصر مدت میں بلوچستان کو جنت بنا دیں گے۔بلوچستان کے حکمرانوں نے اپنی لاپروائی اور غفلت سے صوبے کو ترقی کی بلندیوں کی طرف لے جانے کی بجائے پسماندگی کی طرف دھکیلااپنی معاشی اور تعلیمی سمت درست کی جائے منظر آج بھی بدلا جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں