طرفہ تماشا

تحریر: انورساجدی
ارادہ تھا کہ بحریہ ٹاؤن اور سندھی قوم پرستوں کے ردعمل پر کچھ لکھا جائے لیکن ایک دلچسپ مگر افسوسناک واقعہ دیکھنے کو ملا جاوید چوہدری کے ٹی وی شو میں سابق مرکزی مشیر اطلاعات اورپنجاب کی موجودہ مشیر اطلاعات آپاں فردوس عاشق اعوان اور پیپلزپارٹی کے نومنتخب ایم این اے قادر مندوخیل کے درمیان شدید بحث ہورہی تھی جب آپاں بے بس ہوگئی تو مردوں کی طرح اٹھ کر ایم این اے کو تھپڑ رسید کردیا اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ٹی وی چینلوں پر اس طرح کی بے ہودہ بحث اورپھر مارا ماری دیکھنے کو ملی ہے اس سے قبل بھی بارہا ایسے واقعات ہوئے ہیں خاتون ایکٹویسٹ ماروی سرمد اور حافظ حمد اللہ کے درمیان بھی اسی طرح کاگالم گلوچ ہواتھا ایک دفعہ مرحوم مشاہد اللہ اور پی ٹی آئی کے ایک رکن کے درمیان بھی ہاتھا پائی ہوئی تھی۔
پی ٹی آئی رکن کے جانثار فدائی حسن نثار اور مشاہد اللہ کے درمیان بھی سخت گالم گلوچ ہوا تھا نہ جانے اس طرح کے اور کتنے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں لیکن کسی خاتون نے آج تک اٹھ کر کسی مرد کو تھپڑ نہیں مارا سارا قصور تو اینکر کا تھا جب معاملہ شائستگی کی حد پارکررہا تھا تواسے چاہئے تھا کہ وہ شوروک دیتا لیکن ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں شوجاری رکھا گیا جو کچھ چینلوں میں نظرآرہا ہے وہ ہمارے معاشرے کا عکاس ہے کیونکہ ریاست کے باشندے ناقابل بیان مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں صبروتحمل اور بردباری رخصت ہوچکی ہے لوگ ایک کرب میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے ان میں بے تحاشہ غصہ ہے اس غصہ کااظہار سڑکوں اور کاروباری مراکز میں دیکھنے کو مل رہا ہے رمضان المبارک میں تو افطارسے قبل ہرجگہ اورہر شہر میں لوگ روزے کی تاب نہ لاکر گھتم گھتہ ہوجاتے ہیں ایسا غصہ ایسی بے صبری اور عدم برداشت انقلاب فرانس کے وقت موجود تھا لیکن پاکستان جیسے ملک میں کسی انقلاب کی گنجائش نہیں ہے بلکہ یہاں افراتفری انتشار اور خانہ جنگی کی گنجائش ہے سندھ اسمبلی کو دیکھئے یہاں پر روز اپوزیشن اور سرکاری اراکین کے درمیان نازیبا کلمات کا تبادلہ معمول بن گیا ہے سندھ اسمبلی اکثر مچھلی بازار کامنظر پش کرتی ہے کیونکہ ایم کیو ایم اور سندھی اراکین ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر بات کرتے ہیں جس دن سکون ہوتو ایم کیو ایم کے اراکین ایک نئے صوبے کی بات چھیڑ دیتے ہیں۔انکو پتہ ہے کہ یہ سندھی عوام کی کمزور رگ ہے اور وہ سندھ کی تقسیم کی بات سننا نہیں چاہتے ایک رکن نے تو یہ دلچسپ بات کی ہے کہ وہ سندھ کی زمینیں اپنے ساتھ انڈیا سے لائے تھے حالانکہ وہ صرف تن کے کپڑوں کے ساتھ سندھ آئے تھے اسی طرح بحریہ ٹاؤن کے مسئلہ کو بھی ایم کیو ایم نے لسانی تنازعہ میں تبدیل کردیا ہے یہ بات تو تحقیق کے بعد ہی معلوم ہوگی کہ اس وقت بحریہ ٹاؤن میں جو لوگ رہائش پذیر ہیں ان کی اکثریت مہاجر ہے یا اور قوموں کے لوگ بھی وہاں رہتے ہیں لیکن ندیم نصرت نے یہ کہہ کر آگ بھڑکائی ہے کہ سندھودیش کے حامیوں نے بحریہ ٹاؤن پر حملہ کرکے مہاجروں کی جان واملاک کو نقصان پہنچایا ہے دوسری طرف قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ ان کا مظاہرہ پرامن تھا لیکن ایک سازش کے تحت گھیراؤ جلاؤ کیا گیا بے شک سندھی قوم پرستوں کو وسیع اراضی پر قبضہ کیخلاف احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ 10سال سے کہاں تھے جب سندھ حکومت ملیر کا دیہی علاقہ ملک ریاض کے سپرد کررہی تھی تو سندھ قوم پرست خواب غفلت میں مبتلا تھے جب گوٹھ مسمار کئے جارہے تھے تو ان کے لبوں پر مہر لگی ہوئی تھی جب گوٹھوں کی خواتین اور بچے بلڈوزروں کے سامنے آکر زندگی کی بازی لگانے کیلئے تیار تھے تو نہ جانے قوم پرست کہاں محو استراحت تھے۔
ملیر کے باغات اورمرغزار ملبہ کا ڈھیر بن رہے تھے تو وہ اس کا درد محسوس نہیں کررہے تھے جب یہاں کے بچے فلسطینی بچوں کی طرح ہاتھوں میں پتھر لیکر بکتربند گاڑیوں اور بلڈوزروں پرپھینک رہے تھے تو ان کی بے بسی کسی نظرنہ آئی۔
بہرحال اب پچھتاوے کیا ہووت
جب چڑیاں چگ گئیں ساراکھیت
بحریہ ٹاؤن تو سندھ حکومت کی طرف سے تحفہ میں دی گئی16ہزار ایکڑ نوش جان کرچکی جبکہ گبولوں کو ڈرادھمکا کر مزید ہزاروں ایکڑ بھی ہتھیاچکی اس نے اس وسیع وعریض علاقہ کو دنیا کے سب سے بڑے قلعہ میں تبدیل کردیا ہے اس کی اونچی فصلیں غزہ اور اسرائیل کے درمیان حائل فصل کی طرح ہے گوکہ حالیہ احتجاج سے دنیا کی سب سے بڑی آبادکاری منصوبہ متنازعہ ہوچکا ہے شائد بیرون ملک مقیم لوگ اس پر سرمایہ کاری سے وقتی طور پر ہاتھ کھینچ لیں لیکن اس سے بحریہ ٹاؤن کی ساخت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اس سے زمینوں کا قبضہ کوئی واپس نہیں لے سکے گاکیونکہ اسکی ملکیت پر ثاقب نثار صاحب سپریم کورٹ کی مہرمثبت کرچکے ہیں انہوں نے غریب لوگوں کی زمین جس طرح ایک ساہوکار کے حوالے کی اس کی مثال امریکہ کے سوا کہیں نہیں ملتی جب وہاں کی عدالتوں نے مقامی ریڈانڈین قبائل کو زمین کی ملکیت سے اسی طرح خارج کیا تھا ثاقب نثار کا کیا ان کا توشہ خانہ اتنا لبریز ہے کہ وہ لندن میں باقی عمر مزے سے گزارسکتے ہیں لیکن ہزاروں لوگوں کی بدعائیں انہیں چین سے رہنے نہیں دیں گی افسوس کہ ایک منصف نے بلکہ سب سے بڑے منصف نے ناانصافی کاایسا فیصلہ دیا کہ ملکوں کی تاریخ میں اس کی مثال موجود نہیں۔
ممتاز صحافی محمد حنیف نے حال ہی میں بی بی سی پر جو ویڈیو نشر کیا وہ صحیح معنوں میں ایک آئنہ ہے لیکن ایسی چیزوں کاقبضہ گیروں پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔
البتہ پیپلزپارٹی کیلئے ضرور لمحہ فکریہ ہے کہ اس نے ایک سیٹھ کی خاطر اپنے ہزاروں ووٹروں کو ناراض کردیا بحریہ ٹاؤن کو لیکر پیپلزپارٹی کو آئندہ آنے والے سالوں میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آصف علی زرداری نے چند سال پہلے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے ملک ریاض کو دعوت دے کر سندھ بلایا تاکہ وہ نئے شہرآباد کریں کیونکہ سندھ حکومت میں نئے شہر آباد کرنے صلاحیت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تین اضلاع کراچی جامشورو اور نواب شاہ کی ہزاروں ایکڑ زمین ملک صاحب کے سپرد کردی ہے لیکن درمیان میں ملک صاحب نے زرداری صاحب کے حریفوں کے ساتھ مل کر کراچی کے قریب جزائر ہڑپ کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن زیادہ دباؤ آنے کی وجہ سے یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا لیکن کب تک جب آئندہ کسی الیکشن میں پیپلزپارٹی ہار جائے گی اور سندھ میں ایک پسندیدہ حکومت آجائے گی تو سمجھو کے جزائر اسی دن گئے اور پھر ملک صاحب سیدھے گورکھ ہل پر چڑھ جائیں گے۔
سندھ تو اپنی جگہ لیکن بلوچستان کا جو حشر کیاجارہا ہے وہ ایک بڑاالمیہ ہے ساحل بلوچستان کی زمینوں پر جس طرح قبضہ کیا گیا ہے کسی میں ہمت نہیں کہ اس بارے میں کوئی گستاخی یا لب کشائی کرسکے۔کنڈ سے لیکر جیونی تک لاکھوں ایکڑ کی بندربانٹ ہوچکی ہے۔جو نئے مالکان ہیں ان کی تفصیلات اور شناخت بھی پوشیدہ ہے۔
معلوم نہیں کہ ساحلی پٹی کے عوام کے ساتھ مستقبل میں کیاہونے والا ہے اگرحکمران رحم دل ہوئے تو ان کیلئے مخصوص مقامات پر ”ریزرویشن“ قائم کرکے انہیں رہنے دیں گے ورنہ انہیں دربدر ہوکر کہیں اور جانا پڑے گا اگرسارے لوگ تابع فرمان فرمان بن جائیں تو شائد اس کی نوبت نہ آئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں