حمید کا سر اونچا

تحریر :عاطف رودینی بلوچ
"مجھے اس بات پر کوئی پشمانی نہیں اور مجھے اس بات کا دکھ بھی نہیں ہے کہ میں اس دنیا سے رخصت ہورہا ہوں۔ میری زندگی اس انداز رخصتی کے بعد اور بھی خوبصورت ہوگی۔ میری شہادت پہ حالیہ نسل آنے والی نسلیں فخر کرتے ہوئے ہر محفل میں میری جدوجہد اور میرے فکر کو تاابد زندہ رکھیں گے، ان کا یہی طرز قومی فکر کو مزید وسعت دینے کے اسباب فراہم کرے گا۔ اس قومی ذمہ داری کو اپنا قومی فرض سمجھتے ہوۓ اور اپنے قوم کی سیاسی تربیت شعوری بنیادوں پہ کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا، اس عمل کو سرانجام دینے کے لیے پہلے پہل اپنی ذات میں قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا کہ انقلاب میں سب کچھ نچھاور کرنا پڑتا ہے اور سب کچھ لٹانا پڑتا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر مستقبل میسر ہو، جب اس نظریہ و فکر سے انقلابی لیس ہونگے تو پھر لوگ قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے بلکہ وہ ہر طاقت کا مقابلہ فکری و شعوری بنیاد پر کرینگے اور دنیا میں ایک زندہ قوم کے طور پر نمودار ہوتے ہوۓ ثابت کریں گے” یہ الفاظ کسی عام شخص کے نہیں بلکہ بلوچستان کے اس عظیم فرزند کے شہادت کے چند گھنٹے قبل اپنے تین سالہ بیٹی بانڑی کو لکھی ہوئی خط میں وصیت کا چھوٹا سا حصہ ہے جسے شہید کامریڈ حمید بلوچ کے نام سے جانتی ہے۔

شہید کامریڈ حمید بلوچ 1949 کو تربت کے شہر کنچتی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد علم کے حصول کیلئے کراچی تشریف لے گئے وہ ایک بہادر مدبر دور اندیش اور سرزمین سے بے پنا محبت کرنے والے شخص تھے وہ شعور فکر سے لیس تھے اور ہمہ وقت قوم و سرزمین کی فکر کی پرچار کرتے شہید حمید بلوچ زمانہ طالب علمی سے ہی طلباء سیاست کا آغاز بی ایس او (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) سے کیا۔ شہید حمید بلوچ نے بلوچ قوم بلوچ سرزمین اور دیگر مظلوم قوموں کی خاطر جدوجہد میں اپنی جان قربان کرکے دنیا میں بلوچ قوم اور جدوجہد کو ایک روشن نام بخشا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بلوچ تحریک صرف بلوچ قوم کے خاطر نہیں بلکہ دنیا میں ہر مظلوم کی بقا اور امن کا قیام ہے۔ شہید حمید تاریخ میں الگ اور منفرد شناخت اور مقام رکھتے ہیں وہ بلوچ نوجوانوں اور مزاحمت کاروں کا آئیڈیل بن چکے ہیں۔ شہید حمید بلوچ ہمیشہ قومی مفادات کو ترجیح دیتے اور قومی مفادات کے خاطر یکجا ہونے اتفاق و اتحاد سے جدوجہد کرنے پر زور دیتے حمید بلوچ بلوچ قوم کے بہترین مستقل و ظلم کے خلاف جو بھی فیصلہ کرتے ان ہر بہادری کے ساتھ کھڑے رہتے وہ اکثر نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہتے کہ میرے مشن کو میرے بھائی دوست عزیر اور میرے قوم کے بچے پایہ تکمیل تک پہنچائے گے اس کیلئے کبھی بھی قربانی دینے سے پس پشت نہ رہو قربانی کے ساتھ آپس میں اتحاد و یکجہتی اور متحدہ عمل نہایت ضروری ہے آپس کے اختلاف سے صرف دشمن ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے بی ایس او اگر واقعی مقصد کو منزل تک پہنچانے میں رہنمائی کریگی تو اس کیلئے اتحاد ضروری ہے اتحاد کے بغیر ہم منتشر ہونگے اور ہماری منزل دور ہوگی۔

شہید حمید بلوچ ایک سیاسی طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے سیاسی صورتحال سے کافی معلومات رکھتے تھے 70ء کی دہائی میں روزگار کے نام پر عمان حکومت طفاری تحریک کے خاتمے کیلئے بےروزگار بلوچ نوجوانوں کو عمانی فوج میں بھرتیاں شروع کردی چونکہ حمید بلوچ عمان و مسقط کے حالات اور تحاریک سے بخوبی واقف تھے انہوں نے بلوچ نوجوانوں کو عمان میں مظلوموں کے قتل و ظلم میں استعمال ہونے کی سخت مذمت کی اور اسے روکنے کیلئے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کی اور ساتھیوں سمیت اس عمل کے خلاف احتجاج بھی کی۔ 3 اگست 1979 کو حمید بلوچ نے عمانی بھرتی سینٹر میں بھرتیوں کو روکنے اور انہیں زدکوپ کرنے و بھگڈر مچانے کیلئے فائزنک کھول دی جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا البتہ عمانی حکومت کو بھرتیاں روکنی پڑی حمید بلوچ کو موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا اور نا معلوم عمانی فوجی افسر کے قتل میں سزائے موت سنا دی گئی جس کے بعد حمید بلوچ کو مچھ سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔

حمید بلوچ نے پھانسی کے فیصلے کے خلاف کئی بھی اپیل نہیں کی عمانی افسر کے جانب سے معافی مانگے کی شرط پر شہید حمید بلوچ کو معاف کرنے کی پیشکش بھی کی لیکن حمید بلوچ نے اسے مسترد کر دیا۔ حمید بلوچ 1 سال 6 ماہ جیل میں سزا کاٹی اور 11 جون 1981 کو پھانسی کے پھندے کو اپنے لبوں سے چھوم کر اپنے گلے میں ڈالا اور جام شہادت نوش کرکے جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوئے لیکن اپنے فکر فلسفہ و نظریایے کے ساتھ دنیا کے کھونے کھونے میں پہنچ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے

شہید حمید بلوچ کی سوچ و قربانی آج بھی اجتماعی کاز کو ایندھن دیتی ہے۔ اس کا پر حوصلہ، جاذب و خوبصورت چہرہ آج بھی ہمارے حسن کے معیار طے کرتا ہے۔ شہید حمید بلوچ کے قربانیوں اور شہادت سے ہر ناانصافی، ہر نا برابری کے خلاف حرّیت کے شعلوں کو دوام بخشی اور ایسی سیاسی و فکری لہر پیدا ہوئی جو آج تک تمنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایک لکھاری نے حمید کے جذبات کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ مجھے حمید بلوچ کے جذبات میں بی ایس او صاف نظر آتا تھا حمید بلوچ کی شہادت نے بلوچ قوم کا دنیا کے مظلوم قوتوں کے ساتھ مظبوط رشتہ وابستہ کردیا آج بھی بلوچ نوجوان کرد، فلسطین کشمیری سمیت دیگر مظلوموں کی آواز بن کر فلسفہ حمید پر کار بند ہے دوسرے مظلوم قوموں اور عالم امن کی خاطر قربانی نے شہید حمید بلوچ کا سر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بلند کر دیا۔ حمید بلوچ کے آخری کلمات جنہیں اشعار کی شکل میں پیش کی آج بھی مظلوموں کو طاقت اور ظالم کو کمزور کرنے کیلئے ان کے کانوں میں گونجتی ہے
چھو رہے تھے ظالموں کے سر میرے پاؤں کے ساتھ
کتنا اونچا تھا سر میرا سولی پہ چڑھ جانے کے بعد

اپنا تبصرہ بھیجیں