معاشی استحکام سے معاشی ترقی کا سفر

پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنا سالانہ بجٹ برائے-22 2021پیش کر دیا ہے۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنے خطاب میں یقین دلایا ہے کہ معیشت 3.9فیصد شرح نموکے ساتھ ٹیک آف پوزیشن پر آ چکی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 11ماہ کے دوران26ارب70کروڑ ڈالر اپنے خاندان کی کفالت کے لئے بھیجے۔جون کی ترسیلات کے ساتھ یہ رقم 29ارب ڈالر سے بڑھ جائے گی۔وزیر خزانہ نے اس عمل کو فرشتہ بن کر مدد کو آنے جیسا قرار دیاہے۔علاوہ ازیں ایک ارب ڈالر سے زائد رقم روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اسکیم میں بھی موجود ہے۔کرنٹ تجارتی خسارہ اب80کروڑ ڈالر سرپلس ہوگیا ہے، یعنی جتنا خسارہ ہوتا تھا وہ ختم ہو گیا بلکہ اس سے زیادہ آمدنی ہونے لگی ہے۔ واضح رہے مسلم لیگ نون کی حکومت 19.9ارب ڈالر کرنٹ تجارتی خسارہ چھوڑ کر گئی تھی۔وزیر خزانہ نے اچھی خبر یہ سنائی ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دو مطالبات،بجلی مہنگی کرنے اور 150 ارب کے براہ راست ٹیکس لگانے سے انکار کر دیا ہے۔ وفاقی سرکاری ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں اور پینشن میں 10فی صد اضافے کا اعلان کیا ہے۔شعبہ زراعت میں چھوٹے کاشتکاروں کوبراہِ راست فائدہ پہنچانے کے لئے متعدد اقدامات کابشمول ڈیڑھ لاکھ روپے بلاسود قرض،فی فصل فی گھرانہ دینے اور 2لاکھ روپے تک ٹریکٹر اور مشینری کی خریداری کے لئے بلاسود قرض کا اعلان کیا، جبکہ ماضی میں 68لاکھ چھوٹے کاشتکاروں میں سے صرف ایک لاکھ کو قرض ملتا تھا۔ صنعتی ترقی کے لئے سمال اینڈ میڈیم شعبے کو اٹھانے پر توجہ دی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ہمارے بینکوں کو چھوٹے قرضے دینے کی تربیت نہیں دی گئی اس لئے وہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے، لیکن انہیں تربیت دی جائے گی اور اس کے علاوہ ایسے اقدامات کئے جائیں گے کہ قرضوں کا نیٹ عام آدمی تک پھیل سکے۔ عام آدمی کی زراعت، صنعت اور کاروباری سرگرمیوں میں شمولیت سے معاشی استحکام کے ساتھ معاشی گروتھ بھی ہوگی۔یعنی اس کے حجم میں اضافہ ہوگا۔معیشت کو استحکام اوروسعت اسی وقت ملتی ہے جب ہر شہری اپنی بساط اور صلاحیت کے مطابق اس میں اپنا حصہ ڈالے۔ اس کے بغیر بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل بڑھتے رہیں گے، کم نہیں ہوں گے۔ملک میں اپنی کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دیناہی کارآمد طریقہ ہے۔جاپان نے اسی کی مدد سے آٹو انڈسٹری جیسے شعبوں میں یورپ اور امریکہ کو پیچھے دھکیلا ہے۔تمام پرزے لوگ اپنے گھروں میں بناتے ہیں، فیکٹری میں صرف اسمبلی کاکام کیا جاتا ہے۔سستی مصنوعات کو صارف تک پہنچانے کے لئے کام کی تقسیم اور محنت کشوں کی مالکانہجذبے کے ساتھ عملی شراکت داری از حد ضروری ہے۔ اب حکومت پاکستان بھی جدید دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے آئی ٹی کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ وزیر خزانہ نے ہمسایہ ملک بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہا اگر وہاں آئی ٹی کا شعبہ ترقی کر سکتا ہے تو پاکستان میں بھی یہ شعبہ نمایاں ترقی کی صلاحیت رکھتا ہے۔بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، مگر یہاں بوجوہ زراعت کو بھی مناسب توجہ نہیں مل سکی۔ہر چیز کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔بلکہ کپاس اگانے والے علاقوں میں بھی شوگر انڈسٹری پہنچا دی گئی اور گنا کاشت کرنا شروع کردیا،اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ کاٹن کی پیداوار میں کمی آئے، اور ٹیکسٹائل بھی تباہ ہوجائے۔حکومتی پالیسی میں زراعت اور صنعت دونوں کو بیک وقت ترقی دینا شامل ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ شہروں میں بھی 5لاکھ روپے فی گھرانہ بلاسود قرض دینے او ر گھرانے کے ایک نوجوان کو فنی تربیت بھی فراہم کرنے کااعلان بھی کیا گیا ہے۔چھوٹے تاجروں کے بھی ٹیکس مراعات اور ٹیکس ریٹرن فارم کو سادہ اور آسان بنانے کا اعلان بھی کیا ہے۔چونکہ اس قسم کا غیر روایتی بجٹ پہلی بار پیش کیا گیا ہے اس لئے اس کے نتائج کے بارے میں فی الحال قیاس آرائی سے زیادہ کچھ نہیں کہاجا سکتا۔بظاہر بجٹ وزیر خزانہ کے اعلان کے مطابق نچلے طبقے کو اپر لانے والا بجٹ نظر آتا ہے۔دوسری جانب اپوزیشن نے بجٹ تقریر کے دوران اپنی شور شرابے والی روایت دہرائی۔ پی ٹی آئی اور وزیر اعظم کے خلاف پلے کارڈ بھی اٹھائے اور مسلسل نعرے بازی کی۔بہتر ہوتا کہ پارلیمنٹ کے اس اہم اجلاس میں اپوزیشن جو چار دہائیوں تک پاکستان پر حکمرانی کا تجربہ رکھتی ہے،اسے علم ہے کہ کون سے شعبے ترقی سے محروم رہے اور پس پردہ عوامل کیا تھا؟اب اچھی، پرکشش اور سود مند تجاویز پیش کرکے عوام کی نظروں میں اپنا مقام بناتی۔اگر اپوزیشن چاہے تو بجٹ میں اس فرسودہ نعرے بازی کی جگہ مثبت عمل اختیار کر سکتی ہے۔عوام کو سمجھا سکتی ہے کہ آبادی کا تیزی سے بڑھنا ایک تشویشناک رویہ ہے۔پاکستان کی آبادی کا ایک خاطر خواہ حصہ توہمات کا شکار ہے۔پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کو قتل کرنا ثواب کاکام سمجھتے ہیں، اس لئے کہ امریکہ نے ایک ڈاکٹر کے ذریعے پولیو کے قطروں کی آڑ میں اسامہ بن لادن کو تلاش کیا تھا۔چین کا ایک مشہور قول تھا کہ انسان دنیا میں کمانے کے دو ہاتھ اور کھانے کے لئے ایک منہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔مگر اسی چین نے طویل عرصے تک ایک بچے سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی لگائی۔70کی دہائی میں موجودہ پاکستان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ تھی،آج 22کروڑ سے زیادہ ہے۔پانچ گنا ہوگئی ہے۔اس دوران پانی کا ڈخیرہ بڑھانے کے لئے تعمیر کی بجائے ڈیموں کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی۔ ساڑھے چار افراد کی جگہ 22ہوگئے۔آج پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں۔پینے کا پانی جو معاشرہ فراہم نہ کر سکے وہ کھانے کو روٹی اور سالن کیسے دے سکتا ہے؟عوام کو بھی اپنی سوچ اور رویئے میں تبدیلی لانا ہوگی۔بھوکوں کی تعداد میں اندھا دھنداضافہ روکنا ہوگا۔دھرتی پر اتنا بوجھ لادا جائے جو دھرتی اٹھا سکے۔اپوزیشن کی مجبوری یہ ہے کہ ابھی تک 90کی دہائی میں جی رہی ہے۔وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ آج دنیا کہیں آگے جا چکی ہے۔2021-22 میں صرف پاکستان ہی نہیں بدلا، خطے کا پورا منظر بھی تبدیل ہو چکاہے۔آج امریکہ افغانستان کو فتح کرنے نہیں آرہا،اپنے اور نیٹو افواج کے جوانوں کی لاشیں سمیٹ کر واپس جا رہا ہے۔بھارت اپنی پریشانیوں میں گھرا ہواہے۔سعودی عرب ایران اور شام سے مذاکرات میں مصروف ہے۔روس (بڈابیر اور پشاور کے) گرد سرخ دائرہ نہیں لگا رہا، پاکستان کو ہر قسم کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی پیشکش کر رہا ہے،آنکھیں کھولیں،پرانا منظر نہیں رہا۔ لہٰذا پرانے نعرے اور پرانی حکمت عملی نہیں چلے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں