پبلک سروس کمیشن کے امتحانات اردو میں لینے سے متعلق درخواست کی سماعت

کوئٹہ: چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد کامران ملاخیل پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے ایڈووکیٹ سید نذیر آغا کی اردو کو دفتری، تعلیمی‘عدالتی اور سرکاری زبان بنانے اور پبلک سروس کمیشن کے امتحانات انگریزی کے ساتھ اردو زبان میں لینے کے متعلق آئینی درخواست نمبر 1474/2020 کی سماعت کی، گزشتہ روز جب سماعت شروع ہوئی تو مدعا علیہ نمبر 1 وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شہک بلوچ نے اردو زبان میں عدالت عالیہ میں جواب جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 8ستمبر 2015 کے فیصلے کی روشنی میں عدالتی مقدمات میں سرکاری محکموں کو جوابات حتی الامکان اردو زبان میں پیش کرنے کے لیے سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی کے ذریعے تمام محکموں کے سیکرٹریز کو مراسلہ ارسال کر دیا گیا ہے تاکہ شہری اس قابل ہو سکیں کہ وہ موثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں،درخواست گزار سید نذیر آغا ایڈووکیٹ نے عدالت عالیہ سے استدعا کی کہ مختلف سرکاری محکموں کے ملازمین سمیت عوام کی بڑی تعداد انگریزی زبان سمجھنے سے قاصر ہیں اور 1973 کے آئین پاکستان کے دفعہ 251 اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس پر مشتمل بینچ کا حکم ہے کہ اردو کو دفتری عدالتی اور سرکاری زبان بنانے کے فیصلے پر عمل درآمد کروایا جائیں اور اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے بھی ایک حکم نامہ تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز اور محکموں کو ارسال کیا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی تمام سرکاری تقریبات کی کاروائی اردو زبان میں منعقد کی جائیں درخواست گزار نے بلوچستان ہائیکورٹ سے استدعا کی کہ مختلف مقامات کے نوٹسز اور عدالتی کاز لسٹ اردو زبان میں جاری کرنے کا حکم نامہ جاری کیا جائیں کیونکہ مختلف مقدمات میں تمام فریقین کو عدالتی نوٹسز اردو میں جاری کروانا عدالت کے اختیار میں ہیں جس پر چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے ہاں سیشن کورٹ اور کچہری میں نوٹسز پہلے ہی اردو زبان میں جاری ہو رہے ہیں بعد ازاں بلوچستان ہائیکورٹ نے اردو زبان کے نفاذ کے متعلق ایڈووکیٹ جنرل حکومت بلوچستان اور رجسٹرار ہائیکورٹ سے اگلی سماعت پر مفصل جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں