عوام ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں

بوڑھے والدین اور عم عمر بہن بھائیوں (اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیوی بچوں) کو چھوڑ کرہزاروں میل دور چلے جانا اس حقیقت کامنہ بولتا ثبوت ہے کہ عوام ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ بھوک، افلاس، جہالت اور بیماری سے نجات چاہتے ہیں۔آئین بھی ریاست کو پابند کرتا ہے کہ اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق فراہم کئے جائیں۔کوئی ہوش مند شہری یا دیہاتی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے پیارے دو وقت کی روٹی کو ترسیں،بیمار ہوں تو انہیں علاج میسر نہ ہو، اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہ کرسکیں۔گلی گلی میں منشیات فروش بیٹھے ہوں۔میلے کچیلے نوجوان ٹولیاں بناکر کوڑے کے ڈھیروں کے گرد ہیروئین پی رہے ہوں، مضر صحت انجکشن لگا رہے ہوں۔ عوام انسانی اسمگلروں کو بھاری رقوم دے کر جعلی دستاویزات پربیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ دوران سفر کنٹینرز میں دم گھٹنے یا بھوک پیاس سے مر جاتے ہیں،بعض گرفتار ہو کر جیلوں میں سزاپاتے ہیں،جو بچ جاتے ہیں خوف کی حالت میں گزارتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ مناظراس افسوسناک حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ عوام موجودہ ذلت آمیز زندگی اور جانوروں سے بدترزندگی کو پسند نہیں کرتے،اس سے چھٹکارہ چاہتے ہیں۔یہ مناظرپاکستان سمیت دنیا بھر میں کسی بھی ریاست کے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں، بلکہ گالی سمجھے جاتے ہیں۔پاکستانی عوام کے لئے یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان کی اپوزیشن آج عوام کے مسائل کی بہتات پر دل گرفتہ اور رنجیدہ ہے۔ پینے کا پانی دستیاب نہیں، شدید گرمی میں بجلی غائب ہے،عوام کا برا حال ہے،بلبلا رہے ہیں۔ اپوزیشن کو شدید ملال ہے کہ”ایسٹبلشمنٹ“ نے ایک نااہل، نکمی اورسلیکٹڈحکومت کوعوام کی مرضی کے خلاف عوام پر مسلط کر رکھا ہے۔اپوزیشن کو یقین ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت فوراًگھرنہ بھیجا گیاتو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔دوسری جانب وفاقی وزراء موٹرسائیکلوں پر سوار ہو کر کراچی کے گلی کوچوں میں میڈیا کو دکھا رہے ہیں کہ گزشتہ13برسوں سے یہاں پی پی پی کی حکومت قائم ہے مگر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، سڑکوں کے کنارے کچرے اور غلاظت کے انبار لگے ہیں۔ سیوریج کا نظام ابتر ہے،گٹر ابل رہے ہیں،نالے صاف کرانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر وفاق نالے صاف کر رہا ہے۔ٹرانسپورٹ فراہم کرناصوبائی حکومت کا فرض ہے مگر یہ کام بھی وفاق کررہاہے۔سندھ حکومت وفاق کے خلاف سراپااحتجاج بنی ہوئی ہے کہ وفاق ایسٹ انڈیا کمپنی جیسا کردار ادا کر رہا ہے۔ وعدے کے مطابق پورے فنڈز نہیں دیئے جارہے742ارب دینے تھے 589ارب دیئے ہیں۔دوسری شکایت یہ ہے کہ اپنے حصے کا پانی بھی نہیں دیا جارہا، 35 فیصد کم دیا گیا۔احتجاج کے دوران کی جانے والی نعرے بازی سے لگتا ہے کہ ناراضگی کی وجہ وفاق سے زیادہ پنجاب ہے۔ پنجاب کی جانب سے بھی بعض وضاحتیں اورشکایتیں سامنے آ رہی ہیں۔بیان بازی اور پریس کانفرنسز میں تلخ جملوں کا استعمال درست نہیں، پانی کی پیمائش کی جدید ٹیکنالوجی سے مدد لیں، دونوں صوبے مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے کی کوشش کریں۔ایم کیو ایم وفاق میں حکومت کی اتحادی ہے لیکن کراچی کے مسائل کے حوالے سے اسے بھی تحفظات ہیں۔گویا مسائل حل کرنے کے وعدوں پرعمل درآمد کی رفتار سے تمام فریق مطمئن نہیں دکھائی دیتے۔اس بارے میں بھی مناسب طریقہ باہمی مشاورت ہے، دیگر راستے تصادم کی طرف جاتے ہیں۔ بنیادی کردار وفاقی حکومت کو ادا کرنا ہے۔رنجشوں کو پروان چڑھانا کسی کے لئے بھی سود مند نہیں۔لیکن وفاق کا گزشتہ تین برسوں کے دوران اپنایا گیا رویہ دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ آئندہ دو برسوں میں وفاق اس رویئے پر نظرِ ثانی کر سکے گا۔وزیر اعظم عمران خان کیدل و دماغ میں یہ خوف بیٹھا ہواہے کہ جیسے وہ اپوزیشن سے ہاتھ ملائیں گے یا مسکرا کر بات کریں گیان کا ووٹر ان سے ناراض ہوجائے گا۔126دن روزانہ کی بنیادوں پر کنٹینر پر کی گئی تقاریر ان کے راستے میں حائل ہیں۔ایف اے ٹی ایف کی کڑی شرائط نے بھی وزیراعظم اور اپوزیشن کے درمیان دوریاں پیداکی ہیں۔ باقیماندہ دو سال بھی اسی طرح لڑتے بھڑتے گزریں گے۔دراصل پاکستان بھی تاریخ کے اس مقام تک پہنچ گیا ہے جہاں مفادات کی جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔پرانا سسٹم پرانے طور طریقوں کے ساتھ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا،تبدیلی کا خاموش عمل آگے بڑھتا ہے۔سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ان منصوبوں کو فضول سمجھتے ہیں جن پر وفاق کام کر رہاہے جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمدپینے کے پانیکی فراہمی یقینی بنانے کے لئے سخت احکامات صادر کر رہیں،ایم ڈیواٹر بورڈ کو سسٹم کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں آپ حصہ پہنچاتے ہیں اس لئے عہدے پر ہیں، نہ پہنچائیں تو تبادلہ کر دیا جاتا۔کمشنر کراچی کو جیل بھیجنے کی وارننگ یہ ظاہر کرتی ہے کہ سسٹم اصلاح کا متقاضی ہے۔جو ریاست اپنے دفاعی اخراجات اپنے وسائل سے پورے نہ کر سکے اس کے پاس سسٹم کی اصلاح واحد آپشن بن جاتا ہے۔دفاعی اخراجات آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے قرض لینے والا ملک زیادہ دیر دنیا کے نقشے پرنظر نہیں آتا۔شاید ہمارے مبصرین اور تجزیہ کاروں کو یاد نہ ہو کہ 2015میں ہماری مقتدرہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے۔اس کے بعد عدالتی موڈ
میں تبدیلی دیکھی گئی،کرپشن اور بینامی جائیدادیں گالی بن کر رہ گئیں۔سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ جرم قرارپایا،نالوں پرتعمیرات گرائی جا رہی ہیں۔ریلوے کی اصلاح کے لئے سپریم کورٹ وزیر اعظم عمران خان کو براہ راستہ ہدایت جاری کر رہی ہے کہ معاملات خود دیکھیں (یعنی وزیروں پر نہ چھوڑیں)۔کراچی میں کالاپل کے قریب ریلوے کی زمین واگزار کرا کے وہاں پارک بنانے کا حکم دیا جا چکا ہے۔آج صرف عوام ترقی اور خوشحالی نہیں چاہتے، مقتدرہ بھی یہی خواہش رکھتی ہے۔ایسے حالات میں اگر کوئی تجزیہ کار یہ سمجھتا ہے کہ مافیاز سے نرمی برتی جائے گی،اسے اپنی رائے پر بار بار غور کرنے کی ضرورت ہے۔یاد رہے مافیاز نے لوٹ مارکرتے وقت تمام حدود پار کیں،اسے اس غلطی کاخمیازہ بھگتنا ہوگا۔کل تک کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ بلوچستان کے وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ سے چوری کے 225کروڑ روپے وصول کئے جائیں گے، اور ڈھائی سال سے 10سال قید کی سزا بھی سنائی جائے گی۔ مگر یہ فیصلہ سنایا گیا اور دونوں مجرم اپیل نہیں کر رہے۔ترقی اور خوشحالی پاکستان کے عوام کا حق ہے،عوام کو یہ حق ملنے کے دن قریب آگئے ہیں۔ نوشتہئ دیوار ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں