امریکہ اور روس محاذ آرائی کم کرنے پر تیار

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد سے روس اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی، بیان بازی اور الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔جس نے نہ صرف طول پکڑا بلکہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے سفیر بھی واپس بھجوادیئے۔لیکن اگلے روز جنیوا میں دونوں صدورولادیمیر پیوٹن اور جو بائیڈن کے درمیان 5گھنٹے طویل ملاقات ہوئی اور معاملات کو افہام و تفہیم سے طے کرنے پر اتفاق کیا گیا۔امریکہ نے جان لیا پہے کہ محاذ آرائی اوردوسرے فریق کا بازو مروڑ کر اپنی مرضی ڈکٹیٹ کرنے کا وقت بہت پہلے گزر چکا۔شمالی ویت میں طویل جنگ لڑ نے اور انجام کار ہارنے کے بعد ہی امریکہ کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اسلحے کے زور پر کسی ملک کو محکوم بنانے کی حکمت عملی شرمندگی اور رسوائی کے سواکچھ نہیں دے سکتی۔ خلیجی ریاستوں کے سادہ لوح حکمرانوں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں کے سحر میں جکڑ کر اور سہانے مستقبل کے خوابوں کے سہارے بظاہراپنا بنایااور مطلب نکلتے ہی دنیا کے سامنے عبرت کا نشان بنا دیا۔اس کے یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ روس اور چین کے خلاف بھی یہی پالیسی سود مند رہے گی۔یہ حقیقت فراموش نہیں کی جانی چاہیئے کہ آج ٹیکنالوجی کسی کی میراث نہیں رہی۔شمالی کوریا جیسے چھوٹے چھوٹے ملک امریکہ کو آنکھیں دکھارہے ہیں۔امریکہ سمیت جہاں چاہیں ایٹم بم گراسکتے ہیں۔افغانستان میں فوجیں اتارنے کے 20سال بعد ناکامی اور ندامت کے سوا کیا ملا؟افغانستان ایٹمی قوت نہیں، مگر افغان قوم اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے ہرقسم کی قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔وطن پر جان قربان کرنے کے جذبے سے سرشار ہے۔ہمہ وقت شمشیر بدست اور سر بکف ہے۔دوسری اقوام کی طرح حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے افراد بھی دستیاب ہیں مگر ان کی تعدادہمیشہ مٹھی بھر ہے۔قابض افواج کی واپسی کے ساتھ ہی ان کی گمنام زندگی کادور شروع ہوجائے گا۔افغان طالبان کو یقین ہے کہ امریکی افواج کے بعدافغان فوج ان کے سامنے 5 دن بھی کھڑی نہیں رہ سکے گی۔رواں ہفتے افغان حکومت نے اعترافی بیان ان لفظوں جاری کیا تھا کہ افغانستان کے متعدد اضلاع ایک حکمت عملی کے تحت افغان طالبان کے حوالے کئے جا رہے ہیں۔ انہیں اپنا مستقبل نوشتہئ دیوار نظر آنے لگا ہے۔بلکہ اسی روز انہوں نے پڑھ لیاتھا جب امریکہ نے انہیں شامل کئے بغیر افغان طالبان سے معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔موصولہ اطلاعات کے مطابق بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد یہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔اس لئے کہ یہ سمجھنا درست نہیں امریکہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور یہ تنازعہ بلا وجہ چھوڑ کر جارہا ہے۔اس خطے میں مستقل بد امنی امریکی خارجہ پالیسی کی بنیادی ضرورت ہے۔اس کی خواہش ہے چین کاروستہ روکا جائے، اور اگرروک نہ سکے تو بد امنی کے ذریعے اسے ممکنہ حد تک دشوار بنائے تاکہ کچھ مہلت مل جائے۔اور اس کے لئے قدم جمانے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔مگر وہ یہ بھول رہا ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں عراق سے افغانستان تک ایک ایک کرکے اس نے اپنے تمام ہمدرد اپنے ہاتھوں خود ہی ختم کئے ہیں۔طالبان کو روس کے خلاف استعمال کیا اور روس کے جاتے ہی انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔اب دوسری بار وہی غلطی دہرا رہا ہے۔ادھر یہ بھی سچ ہے کہ افغان طالبان اپنی کامیابی میں اشرف غنی حکومت کو منہ مانگا حصہ ہرگز نہیں دیں گے۔ہاراہوا فریق معاہدہ لکھوانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا، پہلے سے لکھے ہوئے معاہدے پر دستخط کرتا ہے۔کوئی ہوشمندافغانی امریکی جارحیت حامد کرزئی کی طرح قبول نہیں کرتا،اشرف غنی تو کرزئی کا جانشین ہے۔ اپنا ماضی یاد ہونا چاہیئے کہ افغان طالبان کے دور میں وہ ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین تھے، اورانہوں نے افغان طالبان کے دشمنوں کا ساتھ دے کر بڑی غلطی کی ہے۔انہیں یہ بھی یاد ہونا چاہیئے کہ سیاست میں شارٹ کٹ تلاش کرنے والوں کو اپنے غلط فیصلوں کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ افغانستان طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہے۔اس دوران کس نے کس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، ہر ایک یاد رکھتا ہے۔حکومت اور افغان طالبان دونوں کو مستقبل کاقابل عمل فریم ورک بنانا ہے۔لیکن یہ کام آسان نہیں۔ باہمی مشاورت ہم پلہ فریقین کے درمیان ممکن ہے، جہاں طاقت ایک فریق کے پاس ہو وہاں کمزور فریق کوشش کرے کہ آنے والے دنوں میں طالبان کے اعصاب پر ماضی والا غصہ غالب نہ آئے۔اسی طرح طالبان بھی حکومت میں شامل افراد کے لئے جینے کی کوئی گنجائش ضرور رکھیں۔بصورت دیگر خانہ جنگی کا خطرہ موجود رہے گا۔چین دشمن سائیکی اس خطے کو بدامنی کا شکار دیکھنا چاہے گی۔امریکی واپسی سے اس فکر کو شدید دھچکا لگے گا۔پہلے جیسا کردار ادا کرنے کی سکت نہیں رہے گی۔اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوں گے، میدان سے بھاگنے والے فریق کا سہاراکیسے بنیں گے؟پاکستان اوردیگر ہمسایہ ملک خطے میں امن کے خواہاں ہیں، وہ اپنے عوام کے لئے ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ پرائی جنگ کسی پہلو سے مفید نہیں ہوا کرتی۔اشرف غنی نازک موڑ پرکوئی احمقانہ غلطی نہ کریں تو افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔لیکن ماضی کی تاریخ سامنے رہے توامریکہ سے کسی اچھائی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ جو بائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں سلجھے ہوئے اور منجھے ہوئے امریکی صدر ہیں مگر انہیں بھی کچھ دور تک پرانی حکمت عملی کا ساتھ دینا پڑے گا تاکہ امریکہ دنیا کی نظروں اپنا بھرم نہ کھوئے۔جبکہ اس دوران یورپی یونین بھی ایک نئے خوف کا شکار ہے۔ اس کا تازہ ثبوت یہ ہے کہ یورپی یونین کے نگران امورخارجہ نے بھی اپنے 27 اتحادیوں کو روس سے ہوشیار رہنے کا مشورہ دیا ہے کہ براہ راست ڈیل نہ کریں، صاف کہیں کہ یورپی یونین کے توسط
سے بات کرو۔پرانی سامراجی سوچ زوال پذیر ہے۔سامراجی سوچ کے حامل حکمران اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔جو ملک زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے ماضی میں زندہ رہنے کی کوشش کرے گا، اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے گا۔سماج پہلے بھی مختلف سماجی پرتوں کے درمیان مفادات کی جنگ لڑ رہا تھا،اور یہ جنگ آج بھی کسی ایک یادوسری شکل میں جاری ہے۔افغان عوام بھی حالت جنگ میں ہیں تو اس کے پس پردہ عوامل طبقاتی مفادات ہیں۔ لیکن جنگ میں کبھی کبھی ایک قدم پیچھے ہوکر دو قدم آگے بڑھنے کی حکمت عملی بھی اپنانی پڑتی ہے۔ ہمسایہ ممالک کی شدید خواہش ہے کہ افغان طالبان خانہ جنگی سے بچنے کی کوشش کریں مگرزمینی حقائق سے وہی واقف ہیں،لہٰذاحتمی فیصلہ وہی کر سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں