امریکہ کی دوستی مہنگی پڑتی ہے

پاکستان جانتا ہے کہ امریکہ سے دوستی ہو یا دوری دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں۔دونوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔افغانستان میں امریکہ نے روس مخالف پراکسی وار لڑنی ہو، اسے دنیابھرسے مذہبی انتہا پسندوں کو جمع کرنے میں مدد درکار ہو، یابراہ راست افغانستان فتح کرنے کے لئے فوجی اڈوں سمیت ہمہ اقسام خدمات کی ضرورت ہو،پاکستان نے ہمیشہ ساتھ دیااور گھاٹے میں رہا۔ایران سے اپنے تعلقات بہتر بنانے میں دہائیاں گزار دیں، ایران سے گیس لینے کا معاہدہ کیا مگر معاہدے پر آج تک عمل نہ کر سکا کہ امریکہ آستینیں چڑھا کر منع کرتا تھا۔یہ تو ایران کا بڑا پن تھاکہ اس نے معاہدے کی طویل عرصے تک خلاف ورزی کے باوجود عالمی عدالت میں مقدمہ دائر نہیں کیا۔اب کہا جارہا ہے کہ اس معاہدے میں چین،روس اور تاجکستان بھی شامل ہوگئے ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں گیس پائپ لائن بچھانے کا کام شروع ہو جائے گا۔دونوں سروں پر سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد ہوگی، روس اور چین کے صدوربھی اس اہم تقریب میں شریک ہوں گے۔ پاکستان میں گیس کی قلت کا خاتمہ ہوگا اور ایران بھی امریکی پابندیوں کے نقصانات سے نجات حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ امریکہ کے سولہویں صدر ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلامی کے خاتمے کا قانون منظور کرایا تھا۔کتابی زاویہئ نگاہ سے یہ درست ہے مگر فکر اور عملی اعتبار سے امریکہ میں گوروں کی حکومت سیاہ فارم امریکیوں سے آج بھی غلاموں جیسا سلوک کرتی ہے۔پولیس کی ذہنیت نہیں بدلی، لبِ سڑک سیاہ فارم ملزم کی گردن پر گھٹنا رکھ کر لوگوں کی موجودگی میں قتل کرنے میں مصروف ہے۔ایسے واقعات بکثرت رونما ہوتے ہیں۔امریکی پوری دنیا کو اپنا غلام سمجھتی ہے، اس کی اطاعت میں سب کچھ کرنے کے بعد بھی دوست ملک کو ”Do more!“کا حکم سننے کو ملتا ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی زبان سے امریکہ کو افغانستان اور اس خطے کے دیگر ممالک کے خلاف کارروائی کے لئے فوجی اڈے نہ دینے کا سن کر امریکی صحافی کو یقین نہیں آیا، اس نے حیرانگی سے پوچھا:”کیا آپ سنجیدگی سے انکار کررہے ہیں؟“،۔۔۔ وزیراعظم کا جواب تھا: ”Absolutely not!“۔اس کے بعد بھی اگر اپوزیشن کسی شک و شبے کا شکار ہے تو اسے چاہیئے کہ امریکی سینیٹر لنزے گراہم کی امریکی صدر جو بائیڈن پر پاکستان کے وزیر اعظم کوفون نہ کرنے کے حوالے کی گئی تنقید توجہ سے پڑھ لیں۔لگتا ہے امریکی مقتدرہ کی طرح پاکستانی اپوزیشن بھی تاحال 90کی دہائی میں جی رہی ہے۔دونوں نوشتہئ دیوار پڑھنے سے جان بوجھ کر گریزاں ہیں۔لیکن تاریخ اپنے فیصلے منوالیتی ہے۔ہماری اپوزیشن اور امریکی مقتدرہ دونوں کو مان لینا چاہیئے کہ سیاست ہمیشہ معیشت کے تابع ہوتی ہے۔ امریکہ اپنی کمزور معیشت کے بوجھ تلے دبا ہے۔اس کا بجٹ خسارہ 3 ٹریلین ڈالر(3ہزار ارب ڈالر) سالانہ ہے۔جبکہ چین معاشی لحاظ سے کہیں زیادہ مستحکم ہے۔دنیا بھر میں دل کھول کر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پاکستان چین اور روس کے کیمپ میں مکمل طور پر جا چکا ہے، کسی دوراہے پرکھڑاہوا تذبذب کا شکار نہیں ہے۔ایران کوامریکہ نے خود اپنی غلط سوچ کے نتیجے میں چینی کیمپ میں دھکیل دیا ہے۔کیا ہماری اپوزیشن نہیں دیکھ رہی کہ امریکہ کو افغانستان سے باعزت واپسی بھی نصیب نہیں ہوئی۔جب کوئی سیاستدان یا سیاست دانوں کا ٹولہ دانستہ اپنی آنکھیں بند کر لے تو اس کے معنے یہ نہیں ہوتے کہ زمینی حقائق بھی تبدیل ہوگئے ہیں۔امریکی مقتدرہنے اپنے تمام دوستوں کو خود ہی قتل کیا؛عراق کے صدر صدام حسین اس رویئے کی افسوسناک مثال ہیں۔ان پکے خلاف پروپیگنڈا کرایا کہ ان کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (ایٹمی اسلحہ)ہیں، پھر اسی جھوٹے پروپیگنڈے کوجواز بنا کرعراق جیسے ہنستے بستے ملک کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا،لیبیا کو تباہ کیا۔ انہی عزائم کے ساتھ افغانستان کا رخ کیا۔ نیٹو افواج کو ساتھ ملاکر20سال تک اپنا جنگی جنون پورا کیا،مگر بہادر اور غیور افغان عوام نے سامراجیت اور دہشت کی علامت امریکہ کے غرور و تکبر کو تورا بورا کی پہاڑیوں میں دفن کر دیا۔غاصب امریکیوں کااستقبال کرنے والے حامد کرزئی، ان کے جانشین اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ امریکہ کے دورے کررہے ہیں تاکہ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی طرح جان بچائی جائے۔ امریکہ کے دنیا بھرمیں موجودسارے یاراسی قسم کے حالات کا شکار ہیں۔ پاکستان اس یاری کی قیمت چکا کر اس خطے کی سیاست کا حصہ بن چکا ہے۔جنوبی ایشیاء کے دونوں بڑے ملک بھارت اور پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم(SCO) کے رکن ہیں،افغانستان اور ایران فی الحال مبصرین ہیں،لیکن دونوں کسی لمحے رکن کا درجہ حاصل کر لیں گے۔عملی طور پر چین کے قریب آ چکے ہیں۔ سعودی عرب کے حکمران بھی بتدریج ایران اور دیگر امریکہ مخالف ملکوں سے دوستی بڑھانے کی راہ پر بڑھتے نظر آتے ہیں۔زیادہ امکان یہی
نظر آتا ہے کہ اس خطے میں امریکہ کااثرورسوخ آخری سانس لے رہا ہے۔90کی دہائی میں جس امریکہ کے نائب وزیر خارجہ کاشاہانہ انداز میں استقبال کیا جاتا تھا وہ اب دنیا کے کسی ملک میں، کبھی دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔جو لوگ چین کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی مستقبل میں وہی کچھ کرے گا جو سامراج کیا کرتا ہے،تو انہیں چاہیئے کہ اس برے وقت کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے عوام کو، چینی عوام کی طرح، ذہنی اور فکری سطح پر تیار کریں۔ ناخواندہ، پسماندہ اور جدید عالمی تقاضوں سے بے خبرعوام، باشعور قیادت کے بغیر سامراج کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔کوئی مانے یا نہ مانے چین ان خوش قسمت اقوام میں سے ایک ہے جسے مخلص، دوربین،اور عوام دوست قیادت نصیب ہوئی۔چینی لیڈر خاموشی سے کام کرتے رہے اور اپنی معیشت مستحکم کی اور اس پوزیشن میں آگئے جہاں دنیا انہیں حیرت سے دیکھ رہی ہے۔ ہمارے سیاستدان آج کی سیاست میں باہم دست و گریبان ہیں، انہیں آنے والے کل کی کوئی فکر نہیں۔امریکہ اپنی سیاسی، معاشی غلطیوں کے نتیجے میں انتہائی تیزی سے اپنے زوال کی جانب بڑھ رہا ہے۔سنبھلنے میں دہائیاں لگیں گی،تب تک دنیا کا نقشہ تبدیل ہو چکا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں