پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہیں نکل سکا

کے کُل 38 ارکان میں امریکہ، برطانیہ، چین اور بھارت بھی شامل ہیں جب کہ پاکستان اس کا رکن نہیں(ایف اے ٹی ایف)
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ذرائع کے مطابق ادارے نے اپنے اگلے ریویو تک پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کا 20 جون سے جاری اجلاس آج جمعے کے روز اختتام پذیر ہوا جس میں پاکستان کے حوالے سے فیصلہ سامنے آیا ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک عالمی ادارہ ہے، جس کا قیام 1989 میں جی سیون سمٹ کی جانب سے پیرس میں عمل میں آیا، جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ تاہم 2011 میں اس کے مینڈیٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اس کے مقاصد بڑھا دیے گئے۔
ان مقاصد میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنا اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات طے کرنا تھا۔
ادارے کے کُل 38 ارکان میں امریکہ، برطانیہ، چین اور بھارت بھی شامل ہیں جب کہ پاکستان اس کا رکن نہیں۔ ادارے کا اجلاس ہر چار ماہ بعد، یعنی سال میں تین بار ہوتا ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس عمومی طور پر انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے۔ جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا مگر ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔
بلیک لسٹ میں ان ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک ان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔
گرے لسٹ میں ان ممالک کو ڈالا جاتا ہے جن کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں اور وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے کے لیے اعادہ کریں۔
گرے لسٹ میں رہنے والے ممالک کے ساتھ لین دین سے مالیاتی ادارے اور سرمایہ کار ہچکچاتے ہیں۔ اگر پاکستان گرے لسٹ سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کی معاشی سمت اور عالمی تاثر بہت ہو پائے گا۔
اس سے قبل رواں سال فروری میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو چار مہینوں کی مہلت دی گئی تھی اور ایف اے ٹی ایف کی طرف سے اس وقت جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو تین شعبوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ان شعبوں میں ’(1) نامزد شدت پسندوں یا جو ان کے لیے یا ان کی جگہ کام کر رہے ہیں، ان پر مالی پابندیاں لاگو کرنا، (2) دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات اور مقدمات اور ان افراد یا اداروں کو ٹارگٹ کرنا، جو ان کی جگہ کام کر رہے ہیں اور (3) دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف متناسب یا مکمل پابندیوں کی صورت میں کارروائی شامل ہے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان کو جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ میں ڈالا تھا۔
اس کے بعد سے پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے گذشتہ کچھ عرصے میں کئی قانون متعارف کروائے ہیں۔ ان قوانین میں انسداد منی لانڈرنگ قوانین میں ترامیم، انسداد دہشت گردی قانون میں ترامیم، وقف پراپرٹیز قانون، میوچل لیگل اسسٹنس قانون سمیت 14 وفاقی اور تین صوبائی قوانین شامل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں