قومی اسمبلی نے کابینہ، ہوا بازی اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مطالبات منظور کر لئے

اسلام آباد: قومی اسمبلی نے کابینہ، ہوا بازی اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے 417ارب 28 کروڑ 48 لاکھ روپے کے مطالبات زر اورتوانائی ڈویژن کے 374 ارب 31 کروڑ روپے کے مطالبات زر منظور کرلئے۔ پاور ڈویژن کے 349 ارب 82 کروڑ روپے کے دو مطالبات زر منظور کئے گئے۔پیٹرولیم ڈویژن کے 24 ارب 39 کروڑ روپے کے تین مطالبات زر منظور کئے گئے۔کابینہ ڈویژن کے 128 ارب 85 کروڑ کے مطالبات زر منظور کئے گئے۔ہوابازی ڈویژن کے 13 ارب 11 کروڑ روپے کے تین مطالبات زر منظور کئے گئے۔ تخفیف غربت ڈویژن، بی آئی ایس پی اور بیت المال کے 259 ارب 25 کروڑ روپے کے چار مطالبات زر منظور کئے گئے جبکہ ان تمام مطالبات زر پر اپوزیشن کی تمام کٹوتی کی تحریکیں مسترد کر دی گئیں۔ہفتہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت شروع ہوا اور ایوان میں مطالبات زر کی منظوری کا عمل شروع ہوا۔ کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے 29 مطالبات زر پر کٹوتی کی 397 تحاریک پیش کیں گئیں۔ کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے چار سو سترہ ارب 28 کروڑ 48 لاکھ روپے کے مطالبات زر پر کٹوتی کی تحاریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ(ن)رانا تنویر حسین نے بحث کے دوران وفاقی وزیر امور کشمیر پر الزام لگا دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ گالم گلوچ بریگیڈ ہے۔ علی امین گنڈا پور نے آدھا کشمیر بیچ دیا جو آزاد ہے وہ بھی بیچنے جارہے ہیں۔اس پر علی امین گنڈا پور نے احتجاج کیا رانا تنویر حسین نے کہا کہ آپ اپنی آواز تو ٹھیک کرلیں۔یہ وہ وزیر ہے جس کے پاس سے کالا شہد نکلتا ہے۔ سپیکر نے دونوں کو خاموش کرادیا۔ سپیکر نے مطالبات زر کی منظوری کے دوران حکومت اور اپوزیشن کی اپنے اپنے اراکین کو ایوان میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ جو ممالک 1992 کا ورلڈ کپ ہار گئے وہ خوش نصیب تھے۔اتنا نقصان پاکستان کو کسی نے نہیں پہنچایا جتنا اس شیشے کے مرتبان نے پہنچایا۔وزیراعظم نے گھروں کی قرعہ اندازی کی تو پانچویں نام سامنے بیٹھے لوگوں کے کیسے نکل آئے۔پشاور میں لوگوں کو 66 لاکھ کا گھر دیا جا رہا ہے۔پشاور کے اس علاقے میں اب بھی 5 لاکھ کا گھر مل جاتا ہے۔ میرے پاس ثبوت ہیں کہ چیئرمین نیب بلیک میل ہو رہا ہے۔کابینہ کے آدھے وزیروں کی وزارت نااہلی پر تبدیل کی گئی۔جس وزیر نے ایک وزارت میں گڑ بڑ کی تو دوسری وزارت کیوں دے رہے ہیں۔جس وزیر اطلاعات پر کمیشن کا الزام لگایا اسے پنجاب میں پھر وزارت دے دی۔حکومت کے اتنے اسکینڈلز سامنے آئے، کسی کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی۔ کرپشن میں ملوث سب لوگ بھاگ جائیں گے۔ایسے وزیروں کو پارلیمنٹ پیسے کیوں دے۔ بابر اعوان نے کہا کہ وزیراعظم ہاس کے بجٹ میں نمایاں کمی ہوئی۔ وزیراعظم ہاوس کی دیوار 83کروڑ میں نہیں بنی۔ یہ لوگ تو اپنے گھروں کی دیواریں وزیراعظم ہاس کے بجٹ سے بناتے رہے۔یہ کٹ موشنز تھیں یا کسی گرینڈ این آر او کی درخواست تھی۔حکومت گرینڈ این آر او سے انکار کرتی ہے۔لینڈ مافیا سے لے کر دیگر مافیاز سے اس حکومت کے دور میں ایک ہزار ارب روپے کی وصولیاں ہوئی ہیں۔اسی لیے اپوزیشن اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے خلاف بات کر رہی ہے۔سارے الو لندن میں بیٹھے ہیں۔پاکستان میں کسی شاخ پر الو کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان کے لندن میں بیٹھے الو کہنے پر اپوزیشن نے شور مچایا اور احتجاج کیا۔شاہدہ اختر علی نے کہا کہ پاکستان میں بے روزگاری سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے، اداروں میں بھرتیوں کیلئے وفاقی پبلک سروس کمیشن کو اربوں روپے دیے جاتے ہیں، پرائیویٹ ٹیسٹنگ ایجنسیوں کو انٹری ٹیسٹ کیلئے کیوں استعمال کیا جاتا ہے، وفاقی پبلک سروس کمیشن اج تک اپنی استعداد کو بڑھانے میں ناکام رہا، حکومت قومی سطح پر ٹیسٹنگ ایجنسی قائم کر کے بھرتیوں میں شفافیت لائے، حکومت ایوی ایشن ڈویژن کو دو حصوں میں تقسیم کر دے، این ڈی ایم اے کا آج تک آڈٹ نہیں کیا جاسکا، کابینہ ارکان کا پرفارمنس آڈٹ کرانا ضروری ہے، وزرا، معاونین خصوصی کی پرفارمنس کا اڈٹ کیا جانا چاہیے۔اجلاس کے دوران حکومتی ارکان کی جانب سے غلطی سے کابینہ ڈویژن سے متعلق اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک کے حق میں ووٹ دیا تو سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک کی حمایت میں یس اور مخالفت میں نو کا طریقہ کار واضح کرتے ہوئے کٹوتی کی تحریک دوبارہ ہیش کی۔حکومتی ارکان نے دوسری مرتبہ کٹوتی کی تحریک کء مخالفت کرتے ہوئے اسے مسترد کیا۔اپوزیشن ارکان نے کہا کہ حکومتی بینچز پر بیٹھے افراد نے ووٹ دیا ہے۔شازیہ مری نے کہا کہ حکونتی ارکان نے پہلے تحریک کی حمایت میں ووٹ دیا تھا جس پر سپیکر نے کہا کہ میرا فرض ہے کہ میں ارکان کو کٹوٹی کی تحریک کی حمایت اور مخالفت کے طریقہ کار سے آگاہ کروں۔ اس کے بعد کٹوتی کی تحاریک پر رائے شماری ہوئی تو اپوزیشن کی کابینہ، ہوا بازی اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے 29 مطالبات زر پر کٹوتی کی 397 تحاریک مسترد کر دی گئیں۔ ایوان نے کابینہ، ہوا بازی اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے چار سو سترہ ارب 28 کروڑ 48 لاکھ روپے کے مطالبات زر منظور کر لئے۔کابینہ ڈویژن کے 128 ارب 85 کروڑ کے مطالبات زر منظور کئے گئے۔ہوابازی ڈویژن کے 13 ارب 11 کروڑ روپے کے تین مطالبات زر منظور کئے گئے۔ تخفیف غربت ڈویژن، بی آئی ایس پی اور بیت المال کے 259 ارب 25 کروڑ روپے کے چار مطالبات زر منظور کئے گئے۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن کی جانب سے توانائی ڈویژن کے پانچ مطالبات زر پر کٹوتی کی 230 تحاریک پیش کیں گئیں۔ توانائی ڈویژن کے 374 ارب 31 کروڑ روپے کے مطالبات زر پر کٹوتی کی تحاریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے شاہدہ رحمانی نے کہا کہ سندھ میں سی این جی اسٹیشنز کو ایک ہفتے کیلئے بند کردیا گیا ہے۔ یہ قدم کراچی کی ترقی اور کارخانوں کو روکنے کی سازش ہے۔کراچی بند ہوگا تو پورے ملک کی ترقی رک جائے گی، کے الیکٹرک کراچی میں بدمست ہاتھی بن چکاہے۔ کے الیکٹرک کی لوڈشیڈنگ سے عوام کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے، پورے ملک میں 14 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، بجٹ کے دوران پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا جس سے مہنگائی بڑھی ہے۔ آج بجلی کی فی یونٹ قیمت 30 روپے ہوچکی ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ پاکستان کے ہر علاقے میں ہو رہی ہے۔ لوڈشیدنگ ناسور بن چکی ہے۔حکومت واقف نہیں کہ لوگ کن اندھیروں سے بھگت رہے ہیں۔گردشی قرضہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔عوام کو چور کہ دینے سے بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔سانگھڑ میں سب سے زیادہ گیس نکل رہی ہے۔پیٹرولیم لیوی ڈاکہ ہے جسے بند ہونا چاہیے۔گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، توبہ ہے ہم کان پکڑتے ہیں۔سندھ میں صنعتوں کی گیس منقطع کر دی گئی ہے۔سندھ کی گیس کاٹ کر پاکستان کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی نے اٹھ ملازمین کو بغیر نوٹس برطرف کیا، چار سو افراد کی فہرست تیار ہے۔علی گوہر بلوچ نے کہا کہ وزیر خزانہ بتا دیں کہ کونسی بجلی کا پلانٹ ہمارے دور میں مہنگا لگا اور ان کے دور میں سستا لگا ہو۔موٹر ویز یا بجلی کے کارخانے لگانے تو دور کہ بات تین سال میں انھوں نے کوئی ایک حکیم یا نائی کی دکان کھولی ہو تو بتا دیں۔انھوں نے ہمارے منصوبوں پر تختیاں لگانے کے سوا کیا کام کیا۔ہمارے دور سے پہلے کے بجلی کے پلانٹ بند پڑے ہیں۔بتائیں کہ اگر ہم مہنگے پلانٹ لگا گئے تو وہ ہم سے پہلے کے پلانٹ سے بجلی کیوں نہیں لے رہے۔ آغا رفیع اللہ نے کہا کہ تین سال ہوچکے ہیں ملیر گڈاپ کاٹھوڑ وہ علاقہ ہے جو ملک سے پہلے آباد تھے۔ کراچی ملیر میں ایک انچ کی گیس لائین نہیں دے رہے ہیں۔رات کو گیس کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے، کراچی پر کچھ رحم کریں۔آپ کو جو جعلی مینڈٹ دیا گیا اس کا ہی خیال کریں۔کراچی میں گیس کی لائینوں میں پانی آ رہا ہوتا ہے،لائنوں کی مرمت نہیں کی جاتی۔علی محمد خان نے کہا کہ گردشی قرضے 2308 ارب کے ہیں۔ جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا، گردشی قرضے 1608 ارب تھے۔گردشی قرضے میں مہنگی بجلی کا بہت کردار ہے۔ملک میں بجلی کی پیداواری استعداد کار 37 ہزار میگاواٹ ہے جب کہ 11 جون کو 23 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوئی۔آپ کی بارہ تیرہ ہزار میگاوٹ بجلی اضافی پڑی ہے۔ آپ نے مہنگی آئی پی پیز لگا دیں۔ ٹرانسمیشن لائن 27 ہزار میگاواٹ سے زیادہ نہیں اٹھا سکتی۔ آپ نے ٹرانسمیشن لائنز پر سرمایہ کاری نہیں کی۔ آپ کو 1494 ارب روپے آئی پی پیز کو دینے ہیں، ان میں سے آپ نے صرف 635 ارب روپے کی بجلی استعمال کی ہے۔ ہم متبادل انرجی کی پالیسی لیکر آئے ہیں۔ کے الیکٹرک کی صلاحیت بڑھانے کے لیے پورا کام کیا ہے۔ عمران خان کے دور میں ڈیمز پر کام شروع ہوا ہے، جلد یہ منصوبے مکمل ہو جائیں گے۔اس کے بعد ایوان نیتوانائی ڈویژن کے پانچ مطالبات زر پر کٹوتی کی 230 تحاریک مسترد کر دیں اور توانائی ڈویژن کے 374 ارب 31 کروڑ روپے کے مطالبات زر منظور کرلئے۔ پاور ڈویژن کے تین سو انچاس ارب 82 کروڑ روپے کے دو مطالبات زر منظور کئے گئے۔پیٹرولیم ڈویژن کے 24 ارب 39 کروڑ روپے کے تین مطالبات زر منظور کئے گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں