قوم پرستی کو خطرہ سمجھنے والے ہمیشہ قوم پرستی کو غلط پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں,بی ایس او

بی ایس او جامعہ بلوچستان یونٹ کا ہفتہ وار سٹڈی سرکل بروزِ سوموار 28 جون 2021 کو بی ایس او یو او بی سرکل میں جامعہ بلوچستان یونٹ کے آرگنائزر عاطف رودینی بلوچ کے زیر صدارت منعقد ہوا۔جہاں بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل واجہ عظیم بلوچ محترم ثناء بلوچ(پی اہچ ڈی سکالر ) نے بی ایس او کا بیانیہ اور قوم پرستی کے عنوان پر لیکچر دیا۔سرکل میں بی ایس او کے مرکزی، زونل و یونٹ ممبران سمیت کثیر تعداد میں ممبران نے شرکت کی۔ عنوان پر لیکچر کے بعد سوال جواب کا بھی نشست رکھا گیا
مقررین نے بی ایس او کے بیانیہ پر گفتگو کرتے ہوئے بی ایس او کے تاریخ بیانیہ، کردار اور قوم پرستی کی ضرورت و مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بی ایس او بلوچ قوم پرست طلباء تنظیم ہے جس نے دہائیوں سے بلوچ طلباء و طالبات کی نمائندگی کرتے ہوئے نوجوانوں میں قوم پرستانہ سوچ متعارف کروایا۔ ایک زمانے میں سیاست چند مخصوص گروہ کے ہاتھوں میں تھاعام فرد سیاست سے نا بلد نا واقف ہونے کی وجہ سے سیاست کو اپنے بس سے باہر کی شئے سمجھتا تھا۔بی ایس او نے نوجوانوں کو سیاست کی اہمیت، قومی جدوجہد، فلسفہ و فکر سے واقف کرایا۔ بی ایس او نے سیاست کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرکے اسے جلا بخشا اور بلوچ قومی سیاست کو منظم کیا۔ ستر سالہ طویل جدوجہد سے دنیا کو باور کرایا کہ بی ایس او ہی بلوچ نوجوانوں کی حقیقی نمائندہ تنظیم ہے جو شہید حمید شہید فدا سمیت ہزاروں شہداء کی شکل میں اس جدوجہد کو جاری رکھنے میں قربانیوں کے ساتھ جہد کر رہے ہیں۔

مقررین نے قوم اور قومیت کی تعارف، بلوچ سماج میں قوم پرستی کی اہمیت اور ضرورت پہ روشنی ڈالی. قوم پرستی بماقبلہ طبقاتی جدوجہد پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچ قومی تاریخ میں دیکھا جائے تو بلوچ قومی جدوجہد کا اولین ترجیح قومی سوال رہا ہے اور اب بھی ہماری اولین ترجیح قومی سوال ہونا چاہیے. بابا خیر بخش مری سردار عطاء اللہ مینگل نواب بگٹی سمیت دیگر اکابرین نے قومی سوال کو اولین ترجیح دی اور طویل عمر اسی جدوجہد میں گزاری۔
انہوں نے مزید کہا کہ قوم پرستی اور قومی جہد کو خطرہ سمجھنے والے ہمیشہ قوم پرستی کو غلط پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بلوچ قومی وجود کو مٹانے والے قوم پرست اور خود کو بلوچ کہنے والوں کو نسل پرستی و تنگ نظری کا نام دیتے ہیں۔بلوچ قوم کی دیگر مظلوم قوموں کی خاطر جدوجہد ان کی جہد کی حمایت اور دیگر مظلوم و محکوم اقوام پر ہونے والے ظلم کے خلاف بات کرنا بلوچ نسل پرستی و تنگ نظری کی باتوں کی نفی کرتا ہے قوم پرست نظریات و قومی بقا کے خاطر ایک طبقہ، کلاس و سرکل سے نکل کر جدوجہد کرتا ہے۔

بابا خیر بخش مری کے سوشلسٹ ہونے کے سوال پہ ان کا کہنا تھا کہ بابا مری سوشلسٹ رجحانات ضرور رکھتے تھے لیکن وہ ایک قوم پرست رہنما تھے. ان کے باتوں اور ان کے جدوجہد سے کہی پہ بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ سوشلسٹ تھے. صرف بابا خیر بخش مری نہیں بلکہ کئی دیگر قوم پرست رہنماؤں نے بھی سوشلسٹ رجحانات رکھے مگر سوشلسٹ ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا.

اپنا تبصرہ بھیجیں