کرونا وائرس: چیف جسٹس پاکستان کا سوموٹو ایکشن

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے اگرکورونا وائرس کے حوالے سے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک پانچ رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے تو اس کے معنے یہی لئے جا سکتے ہیں کہ انہیں معتبر ذرائع سے کچھ ایسی معلومات ملی ہیں جو صورت حال کی سنگینی کو اجاگر کرتی ہیں اسی تناظر میں مزید تحقیق کے لئے عدالت کی مداخلت ضروری سمجھی گئی ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ کورونا کی روک تھام کے لئے جو کچھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کیا گیا ہے وہ ناکافی ہومزید اقدامات درکار ہوں؟کورونا ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے عالمی سطح پر ہلاکتوں کی تعداد خوفناک حد تک (37ہزارسے زائد)جا پہنچی ہے اورمریضوں کی تعداد بھی17 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس نے اتنی تباہی نہیں مچائی جتنی کہ ہمسایہ ملک چین اورایران میں دیکھی گئی۔تاہم اس بارے میں بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔جتنے ٹیسٹ حکومت کلیم کرتی ہے اس کا 10فیصد پازیٹو آیا ہے اس سے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ا گرٹیسٹ کی رفتار بڑھائی جائے تو مزید ٹیسٹ بھی اسی تناسب سے پازیٹو آنے کے امکانات موجود ہوں گے۔حکومت نے ٹیسٹ بڑھانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔اسی اثناء میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے صوابدیدی اختیارات کے تحت اٹارنی جنرل، سیکرٹری صحت، سیکرٹری داخلہ، چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور چیف سیکرٹریز کولارجر بینچ کے سامنے 13اپریل کوطلب کر لیا گیا ہے۔دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حکومت 14اپریل سے کنسٹرکشن انڈسڑی کو کام کرنے کی اجازت کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ انڈسٹری اس وقت تک کام نہیں کر سکتی جب تک اسے خام مال فراہم کرنے والی 40 کے قریب دیگر صنعتیں بھی فعال اور متحرک نہ ہوں۔ٹرانسپورٹ کی دستیابی کے بغیر تعمیراتی کام ممکن ہی نہیں۔گویا جیسے ہی تعمیراتی شعبہ سرگرم ہوگا ملک کی بہت بڑی آبادی(تقریباًساری) گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آجائے گی۔ زرعی شعبے کو حکومت پہلے ہی لاک ڈاؤن کی پابندی سے آزاد کر چکی ہے۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں 70فیصد آبادی کا تعلق زراعت سے ہے۔آج کل گندم کی کٹائی کا موسم ہے اسے مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔اگر بروقت کٹائی نہ کی جائے توپوری فصل تباہ ہو سکتی ہے پاکستانی عوام کی بنیادی خوراک گندم ہے۔گندم کی قلت سے بہت بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے جبکہ ساری دنیا کورونا کی لپیٹ میں ہے، دیگر ممالک بمشکل اپنی ضرورت پوری کر سکیں گے پاکستان کی مدد کے امکانات ویسے ہی کم ہیں۔اس لئے زراعت کو مستحکم رکھنے کے لئے افرادی قوت کو لاک ڈاؤن کی پابندیوں سے استثناء دینا ضروری ہو گیا تھا۔دوسری جانب حکومت کا کہنا کہ دیہاڑی دار مزدوروں کو گھر بٹھا کر ان کی ضروریات پوری کرنا بھی ممکن نہیں۔صرف راشن کی فراہمی کافی نہیں انہیں بجلی، گیس کے بلوں کے علاوہ مکانات اور دکانوں کا کرایہ بھی ادا کرنا ہے، مالکان کی بڑی تعداد کی گزر اوقات اسی کرائے پر منحصر ہے۔کرایہ رکنے کے معنی ہوں گے مالکان کے چولھے ٹھنڈے ہو جائیں گے۔اور یہ لوگ صاحب جائیداد ہونے کے باعث احساس پروگرام سے باہر ہیں، ان کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔لہٰذاعوام کوروزگار پر جانے کی اجازت دینے کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہیں۔چیف جسٹس پاکستان شائد یہ دیکھرہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی پابندی ہٹتے ہی کورونا کے پھیلاؤ میں تیزی آئے گی اس لئے کہ بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد ممکن نہیں ہوگا،مناسب فاصلہ رکھنا پہلی شرط ہے اور اس شرط کوپورا کرناکام کے دوران آسان نہیں ہوگا۔ مارکیٹیں یکدم لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے 6فٹ کی دوری پر عمل درآمد سے محروم ہو جائیں گی۔اس کے بعد صرف ایک ہی امید رہ جاتی ہے کہ پاکستان کے شہری غیر صحت مند ماحول میں پرورش پانے کے باعث قدرتی طور پر اتنی قوت مدافعت کے مالک ہیں کہ کورونا وائرس کا مقابلہ کر رہے ہیں، اور کورونا تیزی سے نہیں پھیل رہا۔لیکن صحت کا شعبہ تاحال اس قابل نہیں ہو سکا کہ وسیع پیمانے پر کورونا کا مقابلہ کر سکے۔چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے صوابدیدی اختیارات کے تحت معاملے کی چھان بین کا فیصلہ اسی تناظر میں لیا گیا ہے۔پاکستان میں حکومتی بد نظمی سے کوئی شعبہ بھی محفوظ نہیں رہا۔ملک میں کورونا کی موجودگی کے باوجود علاج میں استعمال کی جانے والی کلوروکوئین کی برآمد گی اجازت دے دی گئی تھی اگر بروقت اس فیصلے کو واپس نہ لیا جاتا تو اس دوا کی قلت اور ذخیرہ اندوزی سے فائدہ اٹھانے والے اپنا کام کر چکے ہوتے۔انسانی اقدار کی جگہ ذہنوں میں دولت کی چمک اپنی مضبوط جڑیں گاڑھ چکی ہے۔کورونا کو سر پر کھڑے دیکھ کر بھی نوسر باز اپنی عادت ترک کرنے کو تیار نہیں۔ایسے حالات میں عدلیہ کی نگرانی ضروری ہو جاتی ہے۔توقع کی جانی چاہیئے کہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ کورونا وائرس کو کمائی کا ذریعہ بنانے والوں کے عزائم خاک میں ملادے گا۔غیرملکی امداد تجوریوں میں نہیں جا سکے گی۔ہیرا پھیری کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں