بھارت شہریت ترمیمی قانون منسوخ کرے، ہیومن رائٹس واچ کا مطالبہ

واشنگٹن, ایک معروف بین الاقوامی نگران تنظیم نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس امتیازی سلوک کے حامل شہریت ترمیمی قانون اور پالیسیوں کو منسوخ کرے جس لاکھوں بھارتی مسلمانوں کے حقوق کو خطرہ ہے اور ملک کے سب سے بڑے اقلیتی گروہ اور دیگر برادریوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔82 صفحات پر مشتمل رپورٹ بعنوان ’باغیوں کو گولی ماردو:بھارت کے شہریت ترمیمی قانون کے تحت مسلمانوں کیخلاف امتیازی سلوک‘ میں ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا کہ متنازع شہریت ترمیمی قانون کے تحت غیرقانونی تارکین وطن کی شناخت کے نام پر لاکھوں بھارتی مسلمانوں کے شہریت کے لیے خطرہ پیدا کردیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کہ ’وزیر داخلہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دیگر رہنماؤں کے بیانات سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ لاکھوں بھارتی مسلمان، جن میں بہت سارے خاندان کئی نسلوں سے ملک میں رہ چکے ہیں، ان سے ان کی شہریت کے حق چھین لیے جائیں گے‘۔ واضح رہے کہ دسمبر 2019 میں ہندو قوم پرست بی جے پی کی زیرقیادت حکومت نے متنازع ایکٹ کو منظورجس کے بعد پہلی مرتبہ مذہب کو شہریت کی بنیاد بنایا گیا۔ایچ آر ڈبلیو نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ جب شہریوں کی نئی پالیسیوں پر احتجاج کرنے والوں پر حکومتی حامیوں نے حملہ کیا تو پولیس اور دیگر اہلکار بار بار مداخلت کرنے میں ناکام رہے تھے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پولیس پالیسی کے ناقدین کو گرفتار کرنے اور ان کے پرامن مظاہروں کو منتشر کرنے میں ضرورت سے زیادہ اور مہلک طاقت کا استعمال کررہی ہے۔ ایچ آر ڈبلیو ساؤتھ ایشیا کے ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں نے تشدد کا راستہ کھول دیا ہے اور پولیس کی عدم فعالیت نے پورے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادریوں میں خوف کو جنم دیا۔ایچ آر ڈبلیو نے بھارت کو باور کرایا کہ اقوام متحدہ اور متعدد حکومتوں نے مذہب کی بنیاد پر شہریت کے قانون کو امتیازی سلوک قرار دینے کی عوامی سطح پر تنقید کی ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دہلی میں فروری 2020 میں فرقہ وارانہ جھڑپوں اور مسلمانوں پر ہندو ہجوم کے حملوں کے نتیجے میں 50 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ گواہوں کے اکاؤنٹس اور ویڈیو ثبوت میں پولیس کی مداخلت و تشدد ظاہر ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں خاص طور پر اتر پردیش میں مظاہروں کے دوران کم از کم 30 افراد جاں بحق ہوئے جو زیادہ تر مسلمان تھے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ غیر ملکی ٹریبونلز جو آسام میں شہریت کا فیصلہ کرتا ہے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور ہندوؤں کے مقابلے میں غیرمعمولی تعداد میں مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دیا گیا۔ایچ آر ڈبلیو نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ ترمیم کو منسوخ کرے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ کسی بھی قومی، سیاسی پناہ اور پناہ گزین کی پالیسی سیمتعلق امتیازی سلوک نہ کرے#/s#

اپنا تبصرہ بھیجیں