حکومتی وفد ناراض اراکین کو منانے ناکام، طویل مذاکرات کے بعد بھی پیشرفت نہیں ہوسکی

کوئٹہ:بلوچستان کے کابینہ ارکان کی ناراضگی اور تحفظات دور کرنے کیلئے سینیٹرنصیب اللہ بازئی اور سینیٹراحمد خان خلجی پرمشتمل مذاکراتی وفد صوبائی وزیر کے گھر پہنچ گئے،طویل ملاقات کے بعد بھی مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔گزشتہ روز بلوچستان عوامی پارٹی کے 3صوبائی وزراء اور ایک پارلیمانی سیکرٹری کی ناراضگی دور کرنے کیلئے سینیٹرنصیب اللہ بازئی اورسینیٹر احمد خان خلجی کی صوبائی وزیر حاجی نورمحمددمڑ کی رہائش گاہ گئے جہاں پر ناراض کابینہ ارکان میٹھاخان کاکڑ،حاجی محمدطوراتمانخیل،سردارمسعود لونی اورحاجی نورمحمددمڑ سے طویل ملاقات کی گئی تاہم مذاکرات میں پیش رفت نہ ہوسکی،اس موقع پر صوبائی حاجی نورمحمددمڑ کاکہناتھاکہ صوبائی کابینہ کے فیصلوں میں پشتون بیلٹ کونظرانداز کیاگیاہے بلکہ اہم پالیسی سازی اور حکومتی امور میں بھی اعتماد میں نہیں لیاجارہاہے،مذاکراتی وفد کو ناراض ارکان کابینہ کی جانب سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیاگیاکہ جن میں پورے صوبے میں صرف یہی نمائندے جو موجودہ صورتحال میں کرونا وائرس جیسے وباء میں اپنے حلقے کے عوام کے درمیان میں دیکھے جا رہے ہیں لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان نے کرونا وائرس پر حکومتی پالیسی سازی میں ان سب کو نظر انداز کیا،بی اے پی کے قیام کا مقصد صوبہ کے نمایاں اورسیاسی بصیرت رکھنے والے شخصیات کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا تھاتاکہ صوبے کی بہتر خدمت ہوسکے اور تعصب کی فضا کو ختم کیا جا سکے لیکن بدقسمتی سے پشتون اضلاع اور حلقوں سے منتخب ارکان کو ابتدا ہی سے متناسب نمائندگی نہیں دی گئی اہم وزارتیں وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں اور ہمارے مینڈیٹ کو نظر انداز کیا گیاجبکہ وفاقی پی ایس ڈی پی کے ترقیاتی منصوبوں میں ہمارے حلقوں کو ترجیح نہیں دی گئی نہ صرف وفاقی معاملات بلکہ صوبائی ترقیاتی منصوبوں میں بھی ہمارے اضلاع اور حلقوں کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ صوبائی PSDPs کی بھی حالت یہی ہے بعض اہم پالیسی سازی اور حکومتی امور میں بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا پشتون بیلٹ میں واحد لورالائی یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کو نظر انداز کیا گیاجس پرایسے حالات میں وزارتوں میں رہنے کا جواز باقی نہیں رہتا لہٰذا مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں وزارت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں