توبہ کی نمائش

انور ساجدی
گزشتہ جمعہ کو صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان مسٹرعارف علوی نے ایوان صدر کی مسجد میں نمازتوبہ ادا کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے اللہ تعالیٰ سے پاکستانی عوام کی طرف سے اپنے گناہوں کی بخشش اور کرونا کی وبا سے نجات کی دعا کی بہت اچھی بات ہے توبہ کرنا اور بخشش کی دعا مانگنا اور اچھی بات ہے لیکن عام طور پر توبہ کرنا ایک انفرادی عمل ہے جس کا تعلق توبہ کرنے والے انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوتا ہے دوسرے یہ کہ توبہ کااعلان یااسکی تشہیر نہیں کی جاتی صدرصاحب کی توبہ کے بعد یہ توقع تھی کہ انکے خلاف ایک عدالت میں جو ہاکس بے کی ان18سوایکڑ زمین کامقدمہ چل رہا ہے جو انہوں نے قریبی عزیزوں سے ہتھیاکرجعل سازی کے ذریعے اپنے نام منتقل کردی تھی وہ واپس کریں گے لیکن توقع کے مطابق انہوں نے ابھی تک یہ زمین واپس نہیں کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے توبہ کا جو اعلان کیا وہ نمائشی اورخودنمائی تھا اسکے علاوہ کرونا کی صورتحال کے پیش نظرصدر کوجوکردارادا کرنا چاہئے تھا وہ انہوں نے ادا نہیں کیاحالانکہ کسی فیڈریشن میں جب وزیراعظم کوئی بروقت ایکٹ کرنے میں ناکام ہوجائیں تو صدر کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی رہنمائی کرے اگروفاق اورصوبوں میں اختلاف یاہم آہنگی نہ ہو تو صدرفیڈریشن کے سربراہ کے طور پر کردارادا کرتا ہے بلکہ مداخلت بھی کرسکتا ہے لیکن وہ نازک مرحلے میں ایوان صدر کے اندرمحصور ہیں اور اپنے پسندیدہ طوطوں کے ساتھ باتیں کرنے کے علاوہ انکا سربراہ مملکت کی حیثیت سے کردارصفر ہے۔
صدر کو چاہئے تھا کہ وہ کرونا کے سلسلے میں ایک قومی پالیسی تشکیل دیتے اور وزیراعظم کو مجبور کرتے کہ جو اقدامات ہورہے ہیں انکی اونرشپ لیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر صاحب اور وزیراعظم کے درمیان بھی ہم آہنگی نہیں ہے یا وہ وزیراعظم کی قہرآلود رویہ سے ڈرتے ہیں اور دور دور رہ کر وقت کو دھکادے رہے ہیں انہیں پتہ ہے کہ وزیراعظم اپنے اختیارات میں کسی کا دخل پسند نہیں کرتے ورنہ دخل دینے والوں کاحشرجہانگیرترین جیساہوجائے گا۔
تشویشناک خبر یہ ہے کہ کرونا پاکستان میں تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے مرکزی حکومت اورصوبائی حکومتیں اسکے سامنے بے بس ہیں اب تو طبی عملہ بھی بیماری کا شکار ہورہا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ابھی تک خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے ڈاکٹر بے سروسامانی کے عالم میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں صوبائی حکومتیں گھبراہٹ اور افراتفری کاشکار ہیں سندھ کے وزیراعلیٰ سیدمرادعلی شاہ کو لاک ڈاؤن کا بڑا شوق ہے لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں انکی حکومت ابھی تک دیہاڑی دار مزدوروں اورغریب طبقہ کوکوئی امداد فراہم نہیں کرسکی ہے۔یہ بات ٹھیک ہے کہ لاک ڈاؤن کے علاوہ کرونا کا کوئی اورحل نہیں ہے اور ساری دنیالاک ڈاؤن پر عمل کررہی ہے لیکن وہاں پر لوگوں کو راشن گھروں پر فراہم کیاجارہاہے سندھ کی طرح بلوچستان اور پنجاب کا بھی براحال ہے عوام کو اللہ کے رحم وکرم پرچھوڑدیا گیاہے۔
ادھر وزیراعظم نے احساس پروگرام کے تحت12ہزار فی کس کی امداد دے کر کافی داد سمیٹی ہے لیکن یہ امداد عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے بلکہ عوام کے ساتھ کھلافراڈہے وزیراعظم نے جوامداد دی ہے وہ بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے تحت پہلے سے 2ہزار روپے فی خاندان جاری تھی جبکہ کرونا کی وجہ سے اس میں ایک ہزار روپے اضافہ کرکے اسے تین ہزارروپے کردیا گیا ہے جبکہ چارماہ کی اقساط یکشمت ادا کردی گئی ہیں چلیں اس ماہ تو لوگ جیسے تیسے گزارہ کرلیں گے لیکن اسکے بعد کیا کریں گے کرونا کی صورتحال کے باوجود حکومت کوخداکاکوئی خوف نہیں ہے اور وہ اپنے عوام کے ساتھ دھوکہ کررہی ہے وزیراعظم نے تین روز قبل ایک اچھا سوال اٹھایا تھا لیکن جب اسکی نزاکت کاعلم ہواتو وہ خاموش ہوگئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایٹم بم تو بنالیا لیکن وینٹی لیٹر نہیں بناسکا یہ ایک وسیع موضوع ہے وینٹی لیٹر یا دیگر طبی آلات بنانا سیکیورٹی ریاستوں کاکام نہیں ہے اسی طرح سائنسی شعبہ میں تحقیق کرنا نئی ادویات اوربیماریوں کا علاج دریافت کرنا مہذب ممالک کاکام ہے مثال کے طور پر پاکستان کے اسپتالوں میں کینسرکاعلاج تو ہے لیکن یہاں اسکے کارگرعلاج پرکوئی تحقیق نہیں ہوتی جب عمران خان نے کینسر کااپنا ذاتی اسپتال قائم کیا تھا تو اس وقت اس اسپتال کو کینسر کی تحقیق کیلئے وقف کیاجاناچاہئے تھا لیکن انہوں نے صرف علاج پراکتفا کیا یہاں پراستعمال ہونیوالی تمام مہنگی ادویات آلات مغرب کے تیار شدہ ہیں صرف پاکستان نہیں بلکہ50اسلامی ممالک کایہی حال ہے برسہابرس سے علما اور ملاصاحبان کایہی درس ہے کہ موت کا وقت معین ہے لہٰذا بیماریوں کے علاج کی زیادہ کوشش نہ کی جائے حالانکہ موقع ملتے ہی سارے علماء اپنے علاج کیلئے مغربی ممالک کارخ کرتے ہیں۔کرونا نے دنیا کے تمام مذہبی طبقہ کو بے بس کردیاہے وبا پھیلنے کے بعد تینوں بڑے مذاہب کے ماننے والے علماء تمام ظل سبحانی ہر طرح کے آمر گھروں کے اندرمحصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ پوپ بھی ویٹی کن سٹی میں اپنے محل کے اندرمحصور ہیں یہ تمام مذہبی پیشوا ڈاکٹروں اور سائنس دانوں پرزوردے رہے ہیں کہ وہ اس بیماری کا جلد علاج دریافت کریں اس سے لگتا ہے کہ ان تمام مذہبی پیشواؤں کو اپنی دعاؤں پر یقین نہیں ہے اور وہ مایوس ہوکر سائنس دانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں مسلمانوں کے سب سے بڑے پیشوا خادم حرمین شریفین شاہ سلمان ریڈسی کے ایک دورافتادہ جزیرہ میں چپ گئے ہیں جیسے ان پرکوئی دشمنوں کا لشکر حملہ آور ہورہا ہے انکے خیال میں کرونا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔
ادھر امریکہ انگلینڈ اور جرمنی کے درمیان کرونا کی ویکسین تیار کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے آکفسورڈ یونیورسٹی کے شعبہ بیالوجی کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ انکی ٹیم نے ایک موثر ویکسین تیار کرلی ہے جس کی ایک ہفتہ بعد انسانوں پر آزمائش کی جائے گی جرمنی نے کلوروکوئین اور دیگرادویات ملاکر ایک دوا کی تیاری کاامکان ظاہر کیا ہے جبکہ اسی طرح کا اعلان صدر ٹرمپ نے ایک ماہ پہلے کیا تھا اب جبکہ امریکہ کرونا کا سب سے بڑا مرکز بن گیا ہے وہاں کے سیاستدانوں اورسائنس دانوں کی انگلیاں چین کی طرف اٹھ رہی ہیں ان کاکہنا ہے کہ جب ووہان میں کرونا کا حملہ ہوا تھا تو چین نے کافی وقت تک اسے چھپائے رکھا اور دنیا کو آگاہ نہیں کیا جونہی امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے پر دستخط ہوگئے چین نے وبا کی تباہ کاریوں کا اعلان کیا اس تاخیر کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک کو وبا کے مقابلہ کا وقت نہیں مل سکا امریکہ میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے چین کیخلاف اپنی عدالتوں میں مقدمات دائر کردیئے ہیں تاکہ چین سے کھربوں ڈالر تاوان طلب کیاجاسکے چین یہ تاوان دے گا یا نہیں دے گا اس کا آخری فیصلہ عالمی عدالتوں میں ہوگا امریکہ ان مقدمات کے ذریعے دباؤ بڑھائیگا تاکہ عالمی برادری چین کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہوجائے عالمی بائیکاٹ کے بغیر امریکہ چین کا مقابلہ نہیں کرسکتا اس وقت چین کے پاس دنیا کی کل دولت کا20فیصدحصہ ہے۔30فیصد امریکہ کے پاس ہے گزشتہ دوعشروں میں امریکہ کاحصہ 50سے کم ہوکر30رہ گیا ہے اسی طرح جاپان کاحصہ بھی صرف15فیصد رہ گیا ہے یعنی3ممالک کے پاس دنیا کی کل دولت کا65فیصد حصہ ہے باقی تمام ممالک کی دولت صرف35فیصد ہے یہ صورتحال امریکہ کیلئے قابل قبول نہیں ہے معلوم نہیں کہ وہ حالات اپنے حق میں بدلنے کیلئے کیا کرے گا لیکن گماں یہی ہے کہ امریکہ اور چین کی معاشی اور سیاسی بالادستی کی جنگ کرہ ارض کیلئے بہت تباہ کن ثابت ہوگی چاہے یہ لوگ جرثومی ہتھیاروں کااستعمال کریں یاایک دوسرے پر تجارتی پابندیاں عائد کریں دنیا کے سات ارب انسانوں کی آبادی اس سے ناقابل بیان مصائب تکالیف بیماریوں اور بھوک کا شکار ہوجائے گی۔
جوبے وسیلہ اور کمزورممالک ہیں ان کا کیا بنے گا یہ سوچنے کی بات ہے ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ماضی میں یہ امریکی بلاک میں رہا ہے لیکن کرونا کے بعد دوعالمی طاقتوں کی جو نئی محاذ آرائی شروع ہوگی پاکستان کولازمی طور پر پڑوس کاانتخاب کرنا پڑے گا اگر ایسا ہوا تو لیاقت علی خان کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ پاکستان امریکی بلاک کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا یہ الگ بات یہ اپنی روایت کے مطابق دوغلی پالیسی جاری رکھنے کی تگ ودو بھی کرے گا لیکن کرونا کے بعد تبدیل شدہ عالمی حالات میں دوطرفہ پالیسی کبھی نہیں چلے گی یعنی ایک طرف ہونا پڑے گا۔
لیڈر آف اپوزیشن شہبازشریف نے نشاندہی کی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون گرنے والا ہے اگریہ نشاندہی عوام کی اطلاع کیلئے ہے تو صحیح ہے ورنہ حکومت تو خود چوتھے ستون کو گرانے کی پالیسی پر کاربند ہے گزشتہ دوسالوں میں حکومت جو کررہی ہے اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا تھا بے شمار اخبارات بندہوگئے ہیں ٹی وی چینل بھی یکے بعد دیگر بند ہورہے ہیں حکومت نے شروع میں سرکاری اشتہارات کوبطور ہتھیار استعمال کیا لیکن اب تقریباً بند کردیئے ہیں حکومتی اکابرین کاکہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں طاقتور میڈیا کی ضرورت نہیں ہے چینل صرف ایک ہی کافی ہے اور وہ ہے پی ٹی وی جو عوام سے بجلی کے بلوں میں ہرماہ سو روپے کاٹ کر اس سرکاری چینل کو چلایا جارہا ہے پرنٹ میڈیا کی ضرورت سے تو حکومت شروع سے انکاری تھی اس کا سارا انحصار سوشل میڈیا پر تھا لیکن جوں جوں حکومت کی مقبولیت کم ہورہی ہے حکومت کو سوشل میڈیا پر سخت مقابلہ ہزیمت بلکہ شکست کا سامنا ہے کیونکہ سوشل میڈیا فی الحال مادر پدر آزاد ہے اسکی کوئی اخلاقی معیار نہیں ہے تنقید کی بجائے اس میں دشنام طرازی اور الزام بازی سے کام لیاجاتا ہے حکومت کاکافی عرصہ سے خیال تھا کہ سوشل میڈیا کو چین،ترکی،روس،سعودی عرب اور ایران کی طرح کنٹرول کیاجائے لیکن دیگر کاموں میں الجھ کر اسے ریگولیٹ کرنے کا موقع نہیں ملا خدشہ یہ ہے کہ شہبازشریف کی طرف سے میڈیا کی حمایت کرنے پر حکومت مزید قہرڈھائے گی تاکہ یہ ستون جلد گرجائے۔
دو روز قبل بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض نے اپنا چینل آپ نیوز اچانک بند کردیا انہوں نے پہلے نجی چینل انڈس ٹی وی کوخریدکر اس کے لائسنس پر آپ نیوز شروع کیا تھا اور اس کا انچارج مزاحیہ اینکر آفتاب اقبال کو بنایا تھا اب جبکہ ملک ریاض کاکاروبار رک گیا ہے تو ایک سیٹھ کیلئے یہ مشکل تھا کہ وہ خسارے کاکام چلائیں چنانچہ انہوں نے بہ یک جنبش قلم سینکڑوں لوگوں کو بے روزگار کردیا ملک صاحب نے سپریم کورٹ کواقساط کی ادائیگی میں ریلیف کی درخواست بھی دیدی ہے کیونکہ جب لوگوں کو جان کے لالے پڑے ہیں تو وہ پلاٹوں کی اقساط یانئے پلاٹ کہاں سے خریدیں گے کرونا کی وجہ سے پرائیویٹ ڈویلپرز کاکام طویل عرصہ تک بند رہنے کا امکان ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں