کنٹونمنٹ بلدیاتی نتائج

کنٹونمنٹ بلدیاتی انتخابات محدود علاقوں میں 219حلقوں منعقد ہوتے ہیں،ووٹرز اپنے علاقائی مسائل(پینے کے پانی کی دستیابی،سیوریج سسٹم اور ڈومیسائل فارم کی تصدیق وغیرہ) کو دیکھتے ہوئے ووٹ دیتے ہیں۔امیدوار چونکہ ان کے قریب ہی رہائش پذیر ہوتا ہے اس لئے تقابل کرنے میں انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ لیکن اس کے باوجود یہ نتائج عوام کی عمومی رائے ناپنے کے لئے جزوی طورپرایک پیمانے کا کام دے سکتے ہیں۔نتائج دیکھیں:پاکستان تحریک انصاف 63، پاکستان مسلم لیگ(نون59،آزاد55،پاکستان پیپلز پارٹی17، متحدہ قومی موومنٹ10،جماعت اسلامی 7 عوامی نیشنل پارٹی2،بلوچستان عوامی پارٹی2امیدوار جیتے۔جے یو آئی کا کوئی امیدوار نہیں جیت سکا۔پی ٹی آئی چار سیٹوں کی برتری کے ساتھ پہلے نمبر پر، نون لیگ دوسرے نمبر پر اور آزاد تیسرے نمبر پر ہیں۔ پی پی پی صرف 17سیٹیں جیت سکی اور چوتھے نمبر پررہی۔ایم کیو ایم پانچویں اور جماعت اسلامی چھٹے پر ہے۔7وارڈزمیں الیکشن ملتوی ہوگئے۔پی ٹی آئی کو پنجاب میں صرف 28 سیٹیں ملیں جبکہ نون لیگ کے حصے میں 51سیٹیں آئیں۔اورپنجاب میں ملنے والی کامیابی اسے ملکیسطح پر دوسری پوزیشن دلائی۔ ورنہ باقی تین صوبوں میں اسے صرف4وارڈز میں کامیابی ملی۔پی ٹی آئی کے وزراء جے یو آئی کو ایک وارڈ میں بھی کامیابی نہ ملنے پر خوش ہیں جیسے ان کا اصل مقابلہ جے یو آئی سے تھا۔ہمارے ملک میں انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کرنے کی روایت پختہ نہیں،صرف جماعت اسلامی علاقائی سطح پر اپنے اراکین اور متفقین سے رائے لیتی ہے۔تاہم مبصرین اپنی سوچ اور اندازوں کے مطابق رائے دیں گے۔عوام کے لئے کنٹونمنٹ وارڈز کے انتخابات ایک خبر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔عدم دلچسپی کا یہ رجحان عام انتخابات میں بھی دیکھا جاتا ہے۔عوام کی بھاری اکثریت بڑے فخریہ انداز میں کہتی ہے:”ہم نے کسی کو ووٹ نہیں دیا“۔ووٹ دینے والوں کا تناسب بیشترحلقوں میں 50فیصد سے کم ہوتا ہے۔اس کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کے سوا کسی پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں سمیت بیشتر موروثی ہیں۔بھارت میں کانگریس موروثی ہونے کے باعث اب ووٹرزکی حمایت سے محروم ہو کر صرف نہرو خاندان تک محدود ہو گئی ہے۔پاکستان میں بھی آئندہ دو چارانتخابات میں موروثی جماعتوں کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہوگا۔اس انہدام کے اسباب سیاسی کم اور ان خاندانوں کا دولت سمیٹنے اورشاہانہ زندگی بسرکرنے کا رجحان زیادہ اہم ہے۔جدید ٹیکنالوجی نے ان کی بیگناہی کے دعووں پر کاری ضرب لگائی ہے۔خصوصاً ٹی ٹیز کے ذریعے بے نامی بینک اکاؤنٹس سے بیرون ملک رقوم بھیجنے اور چند سیکنڈوں میں ان کی پاکستان میں اپنے ذاتی اکاؤنٹس میں منتقلی جیسے اقدامات سے ان کی سیاسی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔عدالتوں سے سزائیں سنائے جانے کے بعد سزا یافتہ افراد 10سال تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے اور اس کے بعد لوگ انہیں ماضی میں د ی گئی عزت اور مقام دینے سے ہچکچاہیں گے۔یہ خود بھی عوام کا سامناکرنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ صرف وہی سیاسی پارٹی وجودقائم رکھ سکے گی جس کی جڑیں عوام میں موجود ہوں گی۔عالمی میڈیالمحہ بہ لمحہ بیرون ملک مقیم سیاستدانوں کے لائیو مناظر دکھا رہا ہے جو پاکستانی عدالتوں کو منی لانڈرنگ کے مقدمات میں مطلوب ہیں۔انہیں پاکستانیوں کی جانب سے سخت ردعمل کاسامنا ہے۔ان کے لئے سماجی تقریبات کاا نعقاد بھی ہرگزرتے دن مشکل تر ہوتا جارہا ہے، حتیٰ کہ ہوٹلوں میں جانا بھی آسان نہیں رہا۔ناجائز ذرائع سے حاصل کی جانے والی دولت اور اس سے خریدی گئی جائیدادیں ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر کی جانے والی قانون سازی کے باعث غیر قانونی قرار دی جارہی ہیں۔ایسے بھاری بوجھ کے ساتھ سیاست میں اپنا نام بنانا مستقبل میں ممکن نہیں رہے گا۔واٹس ایپ تمام معلومات نوجوانوں تک پہنچا رہا ہے۔الیکٹرانک میڈیا پرانے ویڈیوکلپ دکھاکر سیاست دانوں کے کہے گئے جملے بار بار دکھاتے اور سناتے ہیں۔ماضی میں یہ سہولت معاشرے کا حصہ نہیں تھی۔”رات گئی بات گئی“جیسااصول رائج تھا۔سیاست دان کے لئے قول کا سچا اور اچھے کردار کا حامل ہونا ضروری نہیں تھا۔جدید ٹیکنالوجی عوامی سوچ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔بادشاہتوں کا خاتمہ چھپائی کی مشین ایجاد ہونے کے بعد ممکن ہوا۔چرچ کو بھی گیلیلیو نامی معروف سائنس دان سے(اس کے مرنے کے بعد) اپنے جاہلانہ مطالبے اور بیوقوفانہ فیصلے پرمعافی مانگنی پڑی۔اس سے ثابت ہوتا کہ دنیا چرچ کے مذہبی عقائد،دعووں اورخدا کے بیٹے کی زمین پر موجودگی جیسے دلائل کے ماتحت نہیں،ان کے دیئے گئے فتاویٰ کے باوجود سورج کبھی زمین کے گرد نہیں گھوما۔تخلیق کے لمحات سے آج تک زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔اسی طرح ڈی این اے جدید دور کی ایسی قانونی شہادت /ثبوت ہے جسے عدالت کے روبرو مجرم نہیں جھٹلا سکتا۔جو لوگ منی لانڈرنگ کی روک تھام میں ابھی تک جدید ٹیکنالوجی کے مددگار ہونے کی صلاحیت کا انکار کر رہے ہیں، وہ بھی دیرتک اپنی رائے پر قائم نہیں رہ سکیں، آخر کارچرچ کی پیروی کرتے ہوئے اپنا جرم تسلیم کر تے دکھائی دیں گے۔یاد رہے آج پاکستانی معاشرہ معاشی بدحالی کے لحاظ سے اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اس کی اپنی بقاء خطرے میں ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک فیصد مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کی خوشنودی کے لئے 99 فیصد آبادی خود کشی کرلے۔مجبوراًایک فیصد معاشرتی اقلیت کو سدھرنا ہو گا۔کنٹونمنٹ کے انتخابی نتائج دیکھ کر حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنی عوامی مقبولیت کا علم ہو جانا چاہیئے۔دونوں کو اپنی سیاسی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔خامیاں دور کی جائیں بصورت دیگر عوام اپنی رائے تبدیل نہیں کریں گے۔حکومتیں ہر دور میں بلدیاتی انتخابات سے
گریزاں رہی ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی خوف ہے کہ ہار مہنگی پڑے گی۔حکومت سندھ کے پاس بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی قانونی وجہ موجود ہے کہ گزشتہ مردم شماری متنازعہ تھی۔وفاق بھی اسی رائے کا حامی ہے۔الیکشن کمیشن نے بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پوچھ گچھ کا فیصلہ کیا ہے، آئندہ ہفتوں میں معلوم ہوجائے گا اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے؟عوام جانتے ہیں کہ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو،بلدیاتی انتخابات کا نام سن کر جمہوریت پسندی کے تمام دعوے ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ پی ٹی آئی بھی اسی صف میں کھڑی ہے، محمود و ایاز میں فرق کرنا ممکن نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں